خطہ پوٹھوہار میں 102منی ڈیمز کی تعمیرکا کام مکمل کر لیا گیا

کسان پیکیج کے تحت پوٹھوہار ریجن میں 32 ہزار 1 سو 90 ایکڑ رقبہ کو قابل کاشت بنایا گیا

منگل 1 مئی 2018 16:10

راولپنڈی یکم مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 مئی2018ء) پنجاب حکومت نے خطہ پوٹھوہار میں ذرائع آبپاشی کے استحکام کے لیے 100سے زائد منی ڈیمز کی تعمیر مکمل کر لی ۔ڈائریکٹر شعبہ تحفظ اراضیات محکمہ زراعت پنجاب غلام اکبر ملک نے اے پی پی کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے گذشتہ دوبرس میں کسان پیکیج کے تحت پوٹھوہار ریجن میں 102 منی ڈیمز، 174 پانی محفوظ کرنے کے لئے تالاب، 39 واٹر ٹینکس، 192 سپل ویز، 198 آئوٹ لٹس، 81 پشتہ جات اور 29 بند بنائے اور ان تمام سکیموں پر 80 فیصد سبسڈی دی گئی۔

اس کے علاوہ رعائتی قیمت پر کاشتکاروں کی ناہموار زمین کو بلڈوزروں کے ذریعے ہموار کر کے قابل کاشت بنا یا گیا۔ غلام اکبرملک نے قومی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ پانی کے ذخائر کے قیام اور زمینی کٹائو کے روک تھام کے اقدامات کی بدولت کسان پیکیج کے تحت پوٹھوہار ریجن میں 32 ہزار 1 سو 90 ایکڑ رقبہ کو قابل کاشت بنایا گیا جس کی تاریخ میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے بھی شعبہ تحفظ اراضی محکمہ زراعت پنجاب کی طرف سے 1200 سے زائد منی ڈیمز بنائے گئے تھے۔ انہو ں نے اے پی پی کو بتایاکہ منی ڈیمز اور تالابوں کی تعمیر سے موسمیاتی تبدیلیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور ان اقدامات کی بدولت زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو نا شروع ہو گئی ہے جبکہ ان علاقوںمیں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور ماہی پروری اور گلہ بانی کے شعبے کو تقویت مل رہی ہے ۔

یہ اقدامات دیہی ترقی کے لئے بہت بڑی مثبت تبدیلی کی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ س علاقے میں زمینی کٹائو اور بارشی پانی کا بہہ کر ضائع ہو جانا بھی بڑا مسئلہ تھا ۔ اس لئے اس علاقے کو خصوصی توجہ کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے گذشتہ سالوں میں خطہ پوٹھوار میں زراعت کی ترقی کے لئے انقلابی اقدامات کیے۔

دریں اثناء ڈائریکٹر واٹر مینجمنٹ راولپنڈی انجینئر محمد اقبال نے سرکاری خبر رساں ادارے کو بتایاکہ اس وقت ملک پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہے۔ دوسری طرف پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ بہت سارا پانی ضائع بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے لئے آئندہ سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روایتی طریقہ آبپاشی سے بہت سارا پانی ضائع ہوجاتا ہے اور فصلوں کے لئے کم میسر ہوتا ہے۔

خصوصاً خطہ پوٹھوار جہاں پہلے ہی پانی کی قلت ہے وہاں پر روایتی آبپاشی بالکل موزوں نہیں۔ اس لئے حکومت پنجاب نے ڈرپ اور سپرنکلر نظام آبپاشی کا منصوبہ شروع کیا۔ گذشتہ دو برس میں 4 ہزار 4 سو 43 ایکڑ رقبہ کو ڈرپ نظام آبپاشی کے تحت سیراب کرنے کے قابل بنایا گیا اور 1 ہزار 90ایکڑ رقبہ کو سپرنکلر نظام آبپاشی کے تحت لایا گیا۔ سپرنکلر نظام آبپاشی روایتی نظام آبپاشی کے مقابلہ میں 60 سے 70 فیصد پانی کو بچاتا ہے جبکہ ڈرپ نظام آبپاشی کے ذریعے 90 تا 95 فیصد پانی فصلوں کو میسر آتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے اے پی پی کو بتایاکہ شعبہ اصلاح آبپاشی کاشتکاروں کو 80 فیصد سبسڈی پر سولر سسٹم نصب کر کے دے رہا ہے۔ سولر سسٹم توانائی کا انتہائی سستا اور مئوثر طریقہ ہے۔اس سے فضائی آلودگی کا بھی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ اصلاح آبپاشی ٹنل فارمنگ کے فروغ کے لئے بھی کام کر رہا ہے۔ ٹنل فارمنگ تھوڑی سی جگہ پر کنٹرول ماحول میں پھل اور سبزیاں اگانے کا موثرترین طریقہ ہے۔ ٹنل فارمنگ میں ہم معیاری سبزیاں اگا سکتے ہیں جن پر زرعی ادویات اور کھادوں کا استعمال بھی کم کیا جاتا ہے۔ اس پر بھی حکومت پنجاب کی طرف سے 50 فیصد سبسڈی دی جا رہی ہے۔