یکم مئی کی تجدید کرتے ہوئے محنت کشوں کو سہولیات دی جائے ،سلطان محمد خان

کم از کم اُجرت 25000 روپے مقرر کیا جائے ،عبدالستار تمام ٹیکنکل سٹاف کو اپ گریڈ اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کیا جائے، شاہ علی بگٹی مائنز میں حادثات کی روک تھام اور کنونشن 176 پر عملدرآمد کیا جائے، محمد زمین

منگل 1 مئی 2018 20:46

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 مئی2018ء) یکم مئی کی مناسبت سے کوئٹہ میں آل پاکستان لیبر فیڈریشن اور پاکستان سنٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے زیر اہتمام لیبر ڈے منایا گیا جس میں ہزاروں کارکنوں نے عظیم الشان جلسہ و ریلی کا انعقاد کیا ۔ مرکزی جلسہ کوئٹہ پریس کلب میں ہوا ۔ جلسہ عام کی صدارت سلطان محمد خان نے کی جبکہ دیگر مقررین میں سیکرٹری جنرل عبدالستار، صوبائی چیرمین شاہ علی بگٹی ، حبیب اللہ کول کمپنی ایمپلائز یونین کے صدر محمد زمین، ایگریکلچر ایمپلائز یونین کے چیئرمین عبدالستار بلوچ، پاک پی ڈبلیو ڈی ورکرز یونین کے صدر عبدالغفار، اسٹیٹ لائف ایمپلائز یونین کے راہنما اسد اقبال ، یونائٹیڈ ماربل مائنز ورکرز یونین چاغی کے صدرسعید احمد بلا نو شی، کوئٹہ سرینا ہوٹل لیبر یونین کے صدر عرفان اللہ ،گورنمنٹ پرنٹنگ پریس یونین کے صدر محمد شفیق ، ورکرز ویلفئیر بورڈ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صدر محمد فاروق بزدار، پی ایم ڈی سی ایمپلائز یونین سورنج کے جنرل سیکرٹری نصیب اللہ درانی ، PMDC یونین ڈیگاری کے صدر حاجی ولی محمد ، لیبر یونین میر قادر بخش کول کمپنی کے جنرل سیکرٹری خدائیداد ، ا ، یوٹیلٹی سٹورز ایمپلائز یونین کے راہنما نجیب اللہ اچکزئی،SBK وویمن یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صدر محمد اکرم بلوچ، ، ایپکا کے مرکزی راہنما نصیر احمد کاکڑ، اور دیگر نے خطاب کیاجبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالحلیم خان نے انجام دی۔

(جاری ہے)

مقررین نے اپنے خطاب میں شکاگو کے جانثاروں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج 132واں یوم مئی ہے جو دنیا بھر کے باشعور محنت کشوں کا بین الاقوامی دن ہے جو 1886میں امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اوقات کار کم کرانے کیلئے صدائے احتجاج بلند کی تھی لیکن سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام نے اس پر امن تحریک کو ناکام بنانے کیلئے نہتے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے سینکڑوں محنت کشوں کو قتل کردیا۔

اور اس طرح خون سے سرخ پرچم محنت کش طبقے کی عظمت کا عالمی نشان بن گیا اور کام کا دورانیہ 16 گھنٹے کے بجائے 8گھنٹے مقرر کیا گیا ۔ مقررین نے کہا کہ یہ مزدور ہی ہیں جن کی شب و روز محنت سے ملک میں خوشحالی آتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی پاکستان میں پرائیویٹ اور پبلک اداروں میں ایمپلائر (مالک) کی وہی صورت حال ہے جو اپنے اداروں میں ٹریڈ یونین کا وجود برداشت نہیں کر تااور جہا ں جہاں پر پہلے سے ٹریڈ یونین کا وجود ہے وہ بھی آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو ر ہا ہے ۔

اُنہوں نے بیروزگاری ،نجکاری، مہنگائی کم اُجرت ، صحت و سلامتی کا فقدان ، چائلڈ لیبر ، مائنز مزدوروں کو سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن نہ کرنے اور مالکان کی ویلفئیر اداروں میں ٹیکسز جمع نہ کرنے ، ظلم و بر بریت ، طبقاتی نظام کے خلاف جد و جہد جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے ۔