انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن148میں ترامیم سے کئی درآمد کنندگان کاروبار سے باہر ہوجائیں گے،کمرشل ایکسپورٹرز

بدھ 2 مئی 2018 17:22

انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن148میں ترامیم سے کئی درآمد کنندگان کاروبار ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 مئی2018ء) کمرشل امپورٹرز اور تاجروں نے وفاقی بجٹ 2018-19 میں مختلف اناملیز کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے انکم آڈریننس میں تبدیلیوں پر گہری تشویش ظاہر کی ہے جس میں صنعتی خام مال اور دیگر اشیاء کے درآمدکنندگان پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد دیا گیا ہے۔کمرشل امپورٹرز اور تاجروں نے کہا ہے کہ ان اقدامات سے کرپشن کی نئی راہیں کھلیں گی اور کمرشل امپورٹرز کو ٹیکس حکام کی جانب سے آڈٹ کا سامنا کرناپڑے گا جسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گاحالانکہ یہ وہ کمرشل امپورٹرز ہیں جو شروع میں ہی انتھائی زیادہ شرح پر ودہولڈنگ ٹیکس ادا کر چکے ہوتے ہیں۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جی ایس ٹی و ریفنڈ،انکم ٹیکس و ایف ای ڈی،کسٹمز، ویلیوایشن، امپورٹ و اینٹی اسمگلنگ کی سب کمیٹیوں کے مشترکہ ہنگامی اجلاس میں شرکاء نے انکم ٹیکس قوانین میں کی گئی تبدیلیوںکو غیرمنصفانہ اور کاروبار مخالف قراد دیا اور کے سی سی آئی پر زور دیا کہ وہ وزیرخزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سامنے مختلف اناملیز کو اجاگر کرے تاکہ پارلیمنٹ سے فنانس بل کی منظوری سے قبل ان اناملیز کو ختم کیا جاسکے۔

(جاری ہے)

اجلاس میںبزنس مین گروپ کے وائس چیئرمین و سابق صدر کے سی سی آئی ہارون فاروقی اور انجم نثار، کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطا ملک،سینئر نائب صدر عبدالباسط عبدالرزاق، نائب صدر ریحان حنیف،سابق صدور اے کیو خلیل، ہارون اگر اور افتخار وہرہ،سابق سینئر نائب صدر محمد ابراہیم کوسمبی اور آصف نثار، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں شریک تھے جس میں کمرشل امپورٹرز، تاجروں، ٹیکس پروفیشنلز، اور ایس ایم ایز کے نمائندوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اجلاس کے شرکاء نے بتایا کہ فنانس بل 2018-19کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 148میں ترامیم کی جارہی ہیں جس سے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس اسٹرکچر میں پہلے سے ہی موجود اناملی کو مزید پیچیدہ کردیا گیا ہے جو خام مال کے کمرشل امپورٹرز پر لاگو ہے اس سال کے بجٹ میں متعارف کی گئی متعلقہ ترمیم سے متعدد امپورٹرز کاروبار سے باہر ہوجائیں گے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ کمرشل امپورٹرز کی جانب سے درآمدی خام مال پر ادا کیے جانے والے 4.5 تا 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کو کم سے کم ٹیکس قرار دیا گیا ہے اور امپورٹرز کو فکسڈ ٹیکس ریجم سے بھی نکال دیا گیاہے۔

اجلاس کے شرکاء نے کہاکہ امپورٹ اسٹیج پر سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے ۔ کمرشل امپورٹرز اور مینوفیکچررز کے درمیان مجموعی ٹیکس کا فرق8سی9فیصد تک ہے اور اس ترمیم کے بعد اس فرق میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔خام مال پر 4.5 تا 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کو کم سے کم ٹیکس قرار دینا ناقابل فہم ہے جو یقینی طور پر آڈٹ اور مطالبوں کے ذریعے ٹیکس گزاروں کو مزید نچوڑ نے کا سبب بنے گا۔

انہوں نے کہاکہ صنعتی خام مال کی فروخت پر منافع کی شرح بمشکل 1سی3فیصد ہے جبکہ انہیں مارکیٹ رسک کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کم منافع کی شرح والے کاروبار پر 4.5 تا 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کو کم سے کم ٹیکس قرار دینا غیر منصفانہ ہے،در حقیقت یہ ایک ٹرن اوور ٹیکس ہے جسے مجموعی مالیت کے حساب سے وصول کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ 4.5 تا 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ سے حکام یہ سمجھتے ہیں کہ امپورٹرز30فیصد تک منافع کمارہے ہیں جو کہ مضحکہ خیز ہے۔

اس قسم کے غیرمنصفانہ اور ظالمانہ ٹیکسوں کی وجہ سے کمرشل امپورٹرز جعلی رجسڑیشن پر مجبور ہوجائیں گے اور وہ مینوفیکچررز کے طور پر درآمد ظاہر کریں گے۔اس کے برعکس مینوفیکچررز کو اسی خام مال کی درآمد پر یا تو مکمل استثنیٰ حاصل ہو تی ہے یا پھر پولیمرز (پی سی ٹی 39.01سے 39.12) جیسے خام مال کی درآمد پر صرف 1.75فیصد کی شرح سے کم سے کم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔

خام مال کے درآمد کنندگان خاص طور پر ایتھائیلین کے پولیمرز،پروپیلین کے پولیمرز،آئرن و اسٹیل، کیمیکلز و ڈائز، یارن و فائبرز،پیپر اوردیگر ضروری اشیاء کے درآمد کنندگان اس ترمیم سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطا ملک نے شکایتوں کو سننے اوران میں مزید اضافے کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ اس مسئلے پر فوری توجہ دیتے ہوئے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل،وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر اور ایف بی آر کے دیگر حکام کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا جائے گا تاکہ کسی بھی قیمت پر اس مسئلے کو حل کیا جاسکے۔