متحدہ مجلس عمل کی قیادت محترم ہے ، نظریاتی اور سیاسی فکر سے اختلاف کا مطلب اسلام اور ملک دشمنی نہیں

ہے‘طاہرمحموداشرفی اشاروں پر کونسے اتحاد بنے اور چلے یہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے ، پاکستان علماء کونسل انتخابات میں براہ راست حمایت کرے گی خفیہ نہیں

بدھ 2 مئی 2018 21:30

متحدہ مجلس عمل کی قیادت محترم ہے ، نظریاتی اور سیاسی فکر سے اختلاف کا ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 مئی2018ء) متحدہ مجلس عمل کی قیادت محترم ہے ، نظریاتی اور سیاسی فکر سے اختلاف کا مطلب اسلام اور ملک دشمنی نہیں ہے ، اشاروں پر کونسے اتحاد بنے اور چلے یہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے ، پاکستان علماء کونسل انتخابات میں براہ راست حمایت کرے گی خفیہ نہیں ، نئے مذہبی سیاسی اتحاد جلد وجود میں آئیں گے ، شمولیت کا فیصلہ شوریٰ کرے گی ۔

یہ بات پاکستان علماء کونسل کے مرکزی چیئرمین اور وفاق المساجد پاکستان کے صدر حافظ محمد طاہر محمودا شرفی نے جامعہ معاذ بن جبل ؓ میں پاکستان علماء کونسل خیبر پختونخواہ اور سندھ کے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔اس موقع پر مولانا عبد الحمید صابری ، مولانا نعمان حاشر ، مولانا طاہر عقیل اعوان ، مولانا شہزاد احمد ، مولانا الیاس مسلم ، مولانا نائب خان، مولانا محمد اشفاق پتافی ، مولانا اسید الرحمن سعید، مولانا اسد اللہ فاروق اور دیگر بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل سیاسی مذہبی اتحاد بنتے ہیں اور آئندہ چند روز میں پاکستان علماء کونسل مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مذہب کے نام پر ووٹ لے کر سیاسی جماعتوں کو ہی مضبوط بنانا ہے تو براہ راست اور اعلانیہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کیوں نہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے اتحاد کیا ہے اور آج بھی بعض مذہبی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں ان جماعتوں کی اتحادی ہیں ، لہذا پاکستان علماء کونسل خفیہ معاہدوں پر نہیں ظاہری سیاست پر یقین رکھتی ہے ، اگر سیاسی جماعتوں سے شراکت اقتدار ہے تو ان کے ساتھ سیاسی اتحاد کیوں نہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ مذہبی قائدین پر تنقید کرنے والوں کو خیال کرنا چاہیے ، اگر تاریخ کے اوراق کھولے گئے تو بہت ساری چیزیں بے نقاب ہو جائیں گی ، ہم خفیہ طاقتوں کے نہیں اپنی شوریٰ کے فیصلوں پر چلتے ہیںاور متحدہ مجلس عمل کی قیادت اگر دوسری مذہبی جماعتوں سے اتحاد چاہتی ہے تو وہ طعنوں کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے ، طعنے دینے اور الزامات لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔