اپنے دور کے آخر تک رینیو ایبل انرجی سی1000 میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے، وزیر اعلیٰ سندھ

بدھ 2 مئی 2018 23:54

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 مئی2018ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ جو وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے دور کے آخر تک رینیو ایبل انرجی سی1000 میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے اور یہ وعدہ پایہ تکمیل کو پہنچنے کو ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار930 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے اور اس سال دسمبر تک یہ تقریبا 1200 میگاواٹ کے قریب ہوجائے گی۔

جاری اعلامیہ کے مطابق انہوں نے یہ بات بدھ کو مقامی ہوٹل میں50 میگاواٹ جھمپیر ونڈ پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بجلی کے بحران کی اہم وجوہات میں غیر موثر اور ناقابلِ عمل پاور پالیسی بالخصوص مقامی وسائل سے بھرپور طریقے سے استفادہ نہ کرنا ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ انہوں نے متبادل انرجی پر بہت اچھے طریقے سے کام کیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب جھمپیر میں ونڈ انرجی کے تین منصوبوں کی تنصیب کی جا رہی تھی تو ونڈ ٹربائنس کی اونچائی کا مسئلہ اچانک سامنے آیا جسے انہوں نے حل کر دیا ہے، اس وقت 2 منصوبے آپریشنل ہیں اور یہ ایک شاندار کامیابی ہے اور اس سے ملک میں زیادہ بجلی دستیاب ہوگی اور انہوں نے کہا کہ ہمیں بلاشبہ اس طرح کے مزید پاور پلانٹس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاور پالیسی دی تو اس پر بہت زیادہ تنقید کی گئی خاص طور پر ان کی حکومت کی برطرفی کے بعد۔

انہوں نے کہا کہ وہ ان دنوں بحرین میں کام کر رہے تھے اور ہم چند انجینئر دوست محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی پاور پالیسی پر بات کرتے تھے، بہت سے ناقدین کے مطابق یہ بہت مہنگی پاور پالیسی تھی مگر اس کا ٹیرف 6 یا 7 سینٹ فی کلو واٹ فی یونٹ تھا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں کہ اگر بجلی نہیں ہوگی تو ہمیں کتنا نقصان ہوگا۔

95-1994 میں یہ اسٹڈی کی گئی تھی جس میں بجلی نہ ہونے کی کیا کاسٹ ہوگی۔ آپ تصور کریں اگرشہید محترمہ بے نظیر بھٹو پاور پالیسی نہیں دیتیں تو تقریباً 500 میگاواٹ پاور نیشن گرڈ میں شامل نہ ہوتی اور اس وقت وہی صورتحال ہے۔انہوں نے پالیسی بنانے والوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس لاگت کا اندازہ لگائیں کہ اگر بجلی نہیں ہوگی تو ہمارے ملک کو کتنا زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا ہوگا اور ہم کتنی ہی دہائیاں پیچھے چلے جائیں گے کیونکہ اگر ہمارے پاس بجلی نہیں ہوتی ہے تو۔

انہوں نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی کی طرح ملک میں انرجی سیکورٹی بھی ہونی چاہیے ۔ فوڈ سیکورٹی کا مثال دیتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ جب 2008 ء میں پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تو ملک میں گندم کی قلت تھی۔پی پی پی کی حکومت نے متعدد ترغیبات کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں ہمیں گندم کی بمپر فصلیں حاصل ہوئیں اور اب ہم گندم برآمد کر رہے ہیں اسی طرح انرجی سیکورٹی حاصل کرنے کے لیے نجی شعبے کو ترغیبات دینا ہوں گی تاکہ وہ پاور جنریشن میں سرمایہ کاری کریں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ انرجی کی آزادی حاصل کرنے کے لیے ہمیں مقامی طور پر حل تلاش کرنا ہوگا۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ میں یہ بات قبول کرتاہوں کہ بجلی کے بلوں کی وصولیاں صحیح نہیں ہیں گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے یہ تمام مسائل ہیں جنہیں ہم نے بہتر بنانا ہے مگر ہم ملک ، لوگوں اور صنعتوں کے لیے بجلی کو روک نہیں سکتے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ انہیں آج وزیرا علی سندھ بنے 21 ماہ دو دن ہوگئے ہیں اور میں نے 16 اگست 2016 ء کو وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی تھی اور ہماری ملاقات میں میں نے ان سے انرجی سے متعلق بات کی تھی ، میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت کے دور کے آخر میں ہمارے پاس 1000 میگاواٹ بجلی ہوگی جوکہ سندھ میں پیدا ہوگی اور اس وقت اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم 937 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس سال کے آخر تک 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے جارہے ہیں ۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ملک میں کوئی واضح انرجی کی پالیسی نہیں ہے۔تھر سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ لوگوں کی جانب سے سندھ حکومت پر تھر میں انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر تنقید کی گئی۔ہم نے اس رقم(ایک بلین ڈالر)سے ہائی ویز تعمیر کیے، میٹرو زقائم کیں ، ٹریٹڈ سیلن واٹر اور صنعتی فضلے کو ٹھکانے لگانے اور برساتی نالے قائم کرنے سمیت دیگر سہولیات مہیا کیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ہم نے تھر میں سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ ہم نے پورے سندھ کے مکمل انفرا اسٹرکچر کو ترقی دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انرجی سیکورٹی کیلئے سرمایہ کاری ہے کیونکہ آئندہ 20 سالوں میں تھر سے 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تھر میں پہلا پلانٹ ٹریک پر ہے اور ہم نے اس کا کول مائننگ کا 75 فیصد کام مکمل کرلیاہے اور اس سال کے آخر تک ہم بجلی کی پیداوار شروع کردیں گے اور 660 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائے گی اور اس طرح ہم ہر سال ایک ہزار میگاواٹ بجلی کا تھر پارکر سے اضافہ کرتے جائیں گے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ کم سے کم ٹیرف 9.5 سینٹ ہے تھر پاور کی لاگت دیگر انرجی کے ذرائع کے مقابلے میں 50 فیصد سے زائد کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے گرڈ میں 5فیصد رینیو ایبل انرجی رکھی ہے۔گرڈ میں کمی بیشی ہے اور یہ کوئی قابلِ بھروسہ لوڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور مجھے ایک چیز یاد ہے کہ ہمیں مسائل ہیں اور ان کے حل بھی ہیں اور کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل نہ ہو۔

مراد علی شاہ نے سوال کیا کہ ہم کیوں درآمدی ایل این جی پر بھروسہ کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس انرجی کے بحران کا حل ہے اور سندھ ملک کو درپیش انرجی کے بحران کو حل کرسکتاہے اور ہمارے پاس کوئلہ، سولر،ونڈ اور چاول کے چھلکے سے بجلی پیدا کرنے کے وسائل موجود ہیں اور ہمارے پاس قابل عمل اور واضح پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جھمپیر کوریڈور سے 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔