تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قومی ترقی کا ایجنڈا طے کرنا چاہیے‘

جب تک پارلیمنٹ ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملک کے حقیقی مسائل نہیں اٹھائے گی حالات بہتر نہیں ہو سکتے‘ حکومت کو پیشکش کرتا ہوں کہ ملک کی اقتصادی ترقی کا ایجنڈا مل بیٹھ کر طے کریں ہم تعاون کریں گے بجٹ میں پٹرولیم لیوی میں 300 فیصد تک اضافے سے غریبوں پر اثر پڑے گا، 30 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں آسکتے ہیں مگر ہماری آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا بجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعرات 3 مئی 2018 12:49

تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قومی ترقی کا ایجنڈا طے کرنا چاہیے‘
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 مئی2018ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قومی ترقی کا ایجنڈا طے کرنا چاہیے‘ جب تک پارلیمنٹ ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملک کے حقیقی مسائل نہیں اٹھائے گی حالات بہتر نہیں ہو سکتے‘ حکومت کو پیشکش کرتا ہوں کہ ملک کی اقتصادی ترقی کا ایجنڈا مل بیٹھ کر طے کریں ہم تعاون کریں گے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر جاری بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایوان میں موجود ہیں جبکہ وزراء کی تعداد کم ہے۔ انہوں نے بجٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں پٹرولیم لیوی میں 300 فیصد تک اضافے کی تجویز ہے اس سے امیروں کی بجائے غریبوں پر اثر پڑے گا۔

(جاری ہے)

موٹر سائیکل اور ویگنوں میں سفر کرنے والوں کی شرح 97 فیصد ہے۔ ہمیں غریب آدمی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 30 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں آسکتے ہیں مگر ہماری آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ حکومت نے خود بھی ٹیکس ایمنسٹی سکیم دی۔ ہمیں بنگلہ دیش کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ ہم کہتے تھے ان کے پاس کچھ نہیں ہے آج وہ کہاں پہنچ چکے ہیں۔

ہمیں تقسیم ہونے کی بجائے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے نکتہ پر متحد ہونا پڑے گا۔ بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ ہے اور ان کے 27 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ ہماری آبادی 21 کروڑ ہے اور صرف ساڑھے سات لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں دوڑنا پڑے گا تب ہم ان کے برابر پہنچ سکتے ہیں۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ مل کر مشاورت سے فیصلہ کریں گے تو حالات بہتر ہوں گے۔

انہوں نے تجویز دی کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ملکی ترقی کا ایجنڈا طے کرنا چاہیے۔ ایک سال لگے گا تو حالات ٹھیک ہوں گے۔ جب تک پارلیمنٹ ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملک کے حقیقی مسائل نہیں اٹھائے گی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست گندی چیز نہیں ہے وہ لوگ گندے ہیں جو سیاست کو گندا کرتے ہیں۔ قائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹو بھی سیاست دان تھے۔

انہوں نے کہا کہ 2015-16ء میں سگریٹ پر ٹیکس 114 ارب تھا‘ 2017-18ء میں 79 ارب کیا جارہا ہے کہ اس شعبے سے 92 ارب حاصل ہوں گے اب بھی 2015ء کے مقابلے میں ریونیو میں 22 ارب روپے کا شارٹ فال ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہے۔ پارلیمنٹ کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیے اور ایف بی آر سے باز پرس کرنی چاہیے۔ ملک کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہر سال دس لاکھ بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

بجٹ میں اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ جب تک ملک سے امیر اور غریب کا فرق نہیں مٹے گا ملک حقیقی ایٹمی قوت نہیں کہلائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی درآمدات اور برآمدات میں اب بھی 30 ارب ڈالر کا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا تھا مگر اب بھی اسلام آباد سمیت ملک بھر میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے منشور کے مطابق سرکاری اداروں میں ہونے والے 400 ارب کے نقصانات کا ازالہ نہیں کر سکی‘ یہ بڑھ کر 1200 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت ملک میں 17 ارب ڈالر ہیں۔ جن میں سے 11 ارب سٹیٹ بنک اور چھ ارب ڈالر بنکوں کے ہیں۔ بیت المال کے بجٹ میں بھی 6 ارب سے 1 ارب روپے کمی کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بجٹ پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ ہمیں عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے پالیسیاں دینی ہوںگی۔ پارلیمنٹ ہی پاکستان اور وفاق پاکستان کو مستحکم بنا سکتی ہے۔ ہر ادارے کو ایک دوسرے کا احترام یقینی بنانا ہوگا۔