ملک سے کرپشن کا کیچڑ صاف کرنے بارے اقدامات قابل تحسین ہیں تاہم چیف جسٹس 5کھرب ٹیکس ادائیگی روکنے والے ججوں اور عدالتوں کے کردار کا بھی جائزہ لیں، پی اے سی کا مطالبہ

نواز شریف حکومت نے سگریٹ کمپنیوں کو30ارب روپے کا فائدہ دینے کے لئے قانون سازی کی ، پی اے سی کا سگریٹ کمپنیوں کے مالی معاملات کا مکمل آڈٹ کرانے کا حکم غریبوں سے صابن تیل پر ٹیکس وصول کر کے امراء طبقہ عیاشیاں کر رہا ہے، ٹیکس مقدمات کی جلد سماعت کے لئے پی اے سی کا چیف جسٹس کو خط نوید قمر نے اپنے دور میں پی ایس او کے 84غیر قانونی تعینات افسران بارے آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے،ملک سے آئل کمپنیاں بھاگ رہی ہیں جبکہ وزارت پانی و بجلی نے قیمت ادا نہ کی تو ایل این جی کی درآمد روک دیںگے، سیکرٹری پٹرولیم کی پی اے سی میں بریفنگ خدا کی قسم نہ کرپشن کی ہے نہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ تعلق ہے ، کوشش کروں گا کہ ٹیکس چوروں کو عبرت کا نشانہ بنا دوں، چیئر مین ایف بی آر کی پی اے سی کو یقین دہانی

جمعرات 3 مئی 2018 21:04

ملک سے کرپشن کا کیچڑ صاف کرنے بارے اقدامات قابل تحسین ہیں تاہم چیف جسٹس ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 مئی2018ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ملک سے کیچڑ اور گند صاف کرنے بارے چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدامات قابل تحسین ہیں تاہم 5کھرب رویپ ٹیکس چوری کے مقدمات میں حکم امتناعی دینے والی عدالتوں اور ججوں کے کردار پر بھی توجہ دیں۔ پی اے سی نے آبزرویشن دی ہے کہ ٹیکس چوری بارے عدالتوں میں پھنسے 5کھرب روپے سے زائد کے ریکوری ہوجائے تو ملک کی خودمختاری کے لئے بہتر ہو گا جبکہ قوم کو بیرونی قرضوں سے بھی نجات مل جائے گی۔

پی اے سی نے چیئر مین ایف بی آر کے انکشافات کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکس مقدمات میں قوم کے 5کھرب روپے پھنسے مقدمات کی جلد سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو باقاعدہ خط تحریر کیا جائے گا جن میں ٹیکس مقدمات کی سماعت ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

(جاری ہے)

پی اے سی نے چیف جسٹس کو پانچ کھرب ٹیکس چوری بچانے کی مکمل تفصیلات اور حکم امتناعی دینے والے ججوں کے ریکارڈ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ٹیکس چوروں کو رعایت دینے والے ججوں کے خلاف بھی چیف جسٹس کارروائی کر سکیں۔

پی اے سی کا اجلاس سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں ایف پی آ کے مالی سال 2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ حبیب کنسٹرکشن کمپنی نے ایف بی آر افسران سے ملی بھگت کر کے 2ارب 40کروڑ روپے کا ٹیکس چوری کر کے عدالت سے حکم امتناعی گزشتہ9سالوں سے لے رکھا ہے جس کی اب پی اے سی کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کرنے اور جلد سماعت کے لئے عدالتوں میں مقدمہ شروع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

اس سکینڈل میں دوسری بڑی ملزم فرم این ایل سی ہے جو اس سکینڈل میں برابر کی شریک ہے۔ پی اے سی نے آڈٹ حکام وک بتایا کہ این ایل سی کا مالی معاملات کا آڈٹ کیا جائے یہ لوگ ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ جب افراد ریست سے زیادہ طاقتور ہو جائیںتو قوم ملک کیلئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں اور ادارے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔

انہیں سوچنا چاہیئے کہ انہیں تنخواہیں اس خزانہ سے ملتی ہیں جس خزانہ و لوٹنے والوں کو عدلیہ حکم امتناعی جاری کر دیتی ہیں۔ عدالتوں کا کام حکم امتناعی نہیں بلکہ فیصلے صادر کرنا ہے۔ چی جسٹس کو دس دس سال سے حکم امتناعی دیکر فیصلے ن کرنے والے قوم کا پیسہ شامل ہے۔ تمام ممبران نے کہا پی اے سی کی طرف سے چیف جسٹس کو ایک خط لکھاجائے جس میں چوروں کے حق میں دیئے گئے حکم امتناعی بارے فیصلے جلد کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

خورشید شاہ نے کہا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خاموشی سے بیٹھنا بھی جرم ہے اور یہ جرم ہم نہیں کریگے۔ چیف جسٹس کے ساتھ ساتھپارلیمنٹ کو بھی جنگی بنیادوں رپ اس عماملہ پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایف بی آر کے چیئر مین طارق پاشا نے کہا کہ چیف جسٹس پہلے ہی اس معاملہ پر ایکشن لے چکے ہیں اور عدالتوں کو واضح ہدایات دے چکے ہیں۔ پی اے سی نے امراء طبقہ کو ٹیکس چھوٹ دینے پر چیئر مین ایف بی آر کی شدید سرزنش کی اور کہا کہ غریبوں سے صابن تیل پر ٹیکس لگا کر افسران اور امراء طبقہ عیاشیاںکر رہا ہے۔

یہ اقدام قابل مذمت ہے۔ چیئر مین ایف بی آر اپنی صفائی کے لئے قسم کھانے لگے اور کہا کہ ساری زندگی کرپشن نہیں کی ہے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ ایف بی آر اپنے محکمانہ کمزوریاں دورکرے تو ملک کے لئے نیگ شگون ہو گا۔ پی اے سی نے نواز شری فکی طرف سے سگریٹ کمپنیوں کو ٹیکس چھوٹ دینے اور سگریٹ کمپنیوں کے مالی معاملات کا مکمل آڈٹ کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔

پی اے سی میں انکشاف ہوا ہے کہ 2016ء میں نواز شریف حکومت نے سگریٹ کی قیمتوں میں کمی کر کے ملک میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کیا جبکہ 22ارب روپے کم ٹیکس کم اکٹھا ہوا۔ گزشتہ فنانس بل میں تین سلیب بنائے گئے جس کے نتیجہ میں دوسرے سلیب سے تمام سگریٹ کمپنیوں نے خود کو تیسرے سلیب میں ظاہر کر کے 30ارب روپے کے ٹیکس بچائے جس کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہیئے۔

چیئر مین ایف بی آر نے سگریٹ کمپنیوں کے حق میں دلائل دیئے تو خورشید شاہ نے کہا کہ ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے غلام نہیں اور نہ ان کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے فیصلے یہاں چلیں گے۔اجلاس میں انکشاف ہوا کہ 2015ء میں سگریٹ شعبہ سی114ارب ٹیکس اکٹھا ہوا جو اب کم ہو کر87.7ارب روپے ہو گیا ہے۔ سینیٹر دلاور حسین بھی سگریٹ لابی کا ایک حصہ ہیں جو سگریٹ بارے معاملات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں سید خورشید شاہ نے کہا ایف بی آر چور کو پکڑے جبکہ دکانوں اور کھوکھوں پر غیر ملکی سگریٹ بیچنے والوں کے خلاف آپریشن شروع کرے تو سگریٹ کی سمگلنگ رک سکتی ہے۔

پی اے سی نے کہا سمگل کی سگریٹ کی ملک میں فروخت کو ہر حال میں روکیں گے۔ دنیا میں سگریٹ نوشی کی ممانعت کے لئے سگریٹ پر ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں سگریٹ پر ٹیکسز کم کر دیئے گئے ہیں تاکہ یہاں کینسر کے زیادہ سے زیادہ مریض پیدا ہوں۔ پی اے سی کی سب کمیٹی کے کنویئر نوید قمر نے پانے دور حکومت میں پی ایس او کے 84افسران جن کو غیر قانونی طریقہ سے بھرتی کیا تھا کی ملازمتوں کو قانونی قرار دے کر آڈٹ اعتراضات مسترد کر دیئے۔

اجلاس میں سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ وزارت پانیو بجلی ایل این جی کی قیمت ادا نہیں کر رہی اور اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو مستقبل قریب میں ایل این جی درآمد نہیں کر سکیں گے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ کے الیکٹرک کروڑوں روپے جی ایس ڈی کی مد میں ادائیگی نہیں کر رہی ۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی امین راجپوت نے کہا کے الیکٹرک کے ساتھ2004ء میں کئے گئے معاہدے سے 200ایم ایم جی زیادہ گیس فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی ہے ۔ کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ بین الاقوامی آئل کمپنیوں نے پٹرولیم ٹیکسز کی مد میں حکومت کے 3لاکھ ڈالر دے رکھے ہیں۔ اب ملک میں سکیورٹی کی بنا پر ائل کمپنیاں بھاگ رہی ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے نہیں آ رہے۔۔