فاٹا کے حوالے سے وزیراعظم کے اعلانات خوش آئند ہیں،تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ معمولی ہے، ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

جمعہ 4 مئی 2018 15:07

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 مئی2018ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ فاٹا کے حوالے سے وزیراعظم کے اعلانات خوش آئند ہیں، سود سے پاک معیشت رائج کی جائے، تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ معمولی ہے، تمباکو کے کاشتکاروں کو ریلیف دیا جائے، ایمنسٹی سکیم سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوگی، ترقیاتی منصوبے برابری کی بنیاد پر بننے چاہئیں۔

جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر ایوب نے کہا کہ قرضوں کے بوجھ میں اضافے پر تشویش ہے، سادگی اپنا کر ہم ملک کو ترقی یافتہ معیشتوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ ضم ہونے سے فاٹا کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ فاٹا کو تین فیصد حصہ دینا پڑے گا۔ اس کے بغیر فاٹا کے انضمام سے مسئلہ پیدا ہوگا۔

(جاری ہے)

پولیٹیکل ایجنٹوں والا سسٹم برقرار رہا تو سارا پیسہ کرپشن کی نذر ہو جائے گا۔

مشتاق احمد خان نے کہا کہ وزیراعظم کے فاٹا کے حوالے سے اعلانات خوش آئند ہیں، کم از کم ایک ہزار ارب ان کے لئے ضروری ہیں۔ کاشتکاروں، نوجوانوں اور مزدوروں کے لئے بجٹ میں ریلیف نہیں، معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے سود سے پاک معیشت رائج کی جائے۔ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ معمولی ہے۔ ٹوبیکو کے کاشتکاروں کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے۔

سگریٹ پر ٹیکس لگایا جائے، تمباکو پر نہیں۔ مقامی صنعتوں کو تحفظ دیا جائے، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر میثاق معیشت کرنا چاہئے۔ سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ حکومت کو دولت مشترکہ کی طرف سے ایوارڈ پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ پنجاب حکومت نے خواتین کو وہ محفوظ ماحول دیا ہے، جس کی ضرورت ہے۔ حکومت کی بہتر قانون سازی سے خواتین کو تحفظ ملا ہے اور ان کے خلاف ہراسمنٹ اور تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

انہیں بااختیار بنانے کے لئے حکومت نے بہت کام کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے اقدامات کی باقی صوبوں کو بھی پیروی کرنی چاہئے۔ سینیٹر جاموٹ نے کہا کہ یہ بجٹ ملک کو فنانشل ایمرجنسی کی طرف لے کر جائے گا۔ اس میں غیر روایتی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ بجٹ سے عوام پر بوجھ میں اضافہ ہوگا۔ ایمنسٹی سکیم سے ٹیکس دہندگان کو اچھا پیغام نہیں گیا۔ ارکان سینیٹ کو کہا جاتا ہے کہ ڈائریکٹ انتخابات سے نہیں آئے اس لئے مالیاتی اختیارات نہیں تو بجٹ پیش کرنے والے وزیر بھی ڈائریکٹ الیکشن سے نہیں آئے۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ اس بجٹ سے صرف سیٹھوں کو خوشی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ علاقائی سیاست کی ہے۔ یہ بجٹ این ایف سی کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ ملک کو آئین کے مطابق چلانا پڑے گا۔ کل کلاں اگر چھوٹے صوبے بھی اس راہ پر چل پڑے تو کیا کریں گے۔ سینیٹر نصیب الله بازئی نے کہا کہ کل صحافیوں پر تشدد کے واقعہ کی مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی منصوبے برابری کی بنیاد پر بننے چاہئیں، بلوچستان میں پینے کا پانی سب سے بڑا مسئلہ ہے، ملک کو فیڈریشن کے طور پر چلایا جائے، ترقی چند شہروں تک محدود نہیں ہونی چاہئے۔

سینیٹر خانزادہ خان نے کہا کہ پٹرولیم لیوی میں اضافہ واپس لیا جائے ورنہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ قبائلی علاقوں کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ ٹیکس ریفنڈ میں جو پیسہ روکا گیا ہے وہ ادا کیا جائے۔ ایمنسٹی سکیم نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔