ایون فیلڈ ریفرنس ،ْنیب تفتیشی افسر پر مریم نواز، کیپٹن صفدر کے وکیل کی جرح مکمل

ایون فیلڈ ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند ،ْسماعت(کل)پھر ہوگی

پیر 7 مئی 2018 19:01

ایون فیلڈ ریفرنس ،ْنیب تفتیشی افسر پر مریم نواز، کیپٹن صفدر کے وکیل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مئی2018ء) احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب کے تفتیشی افسر عمران ڈوگر پر مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے وکیل امجد پرویز نے جرح مکمل کرلی جس کے بعد سماعت (آج) منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنس کی ساعت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور کچھ دیر بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی ،ْمریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔سماعت کے دوران تفتیشی افسر عمران ڈوگر پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی جرح مکمل ہوگئی۔

(جاری ہے)

اس طرح ایون فیلڈ ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔نیب (آج) منگل کو ایون فیلڈ ریفرنس میں شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان دے گا۔سماعت کے دوران امجد پرویز ایڈووکیٹ نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان کو منگل کو آنے کی ضرورت ہی جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ ملزمان کو (آج) منگل کو آنے کی ضرورت نہیں۔اس سے قبل 4 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب کے تفتیشی افسر پر جرح مکمل کی تھی۔

خواجہ حارث کی جرح کے دوران نیب کے تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے کہا تھا کہ نیب قانون کے تحت عام طور پر ملزم کے خلاف کارروائی کا آغاز شکایت موصول ہونے پر کیا جاتا ہے جس کے بعد اسکروٹنی، انکوائری اور تحقیقات کے بعد ریفرنس داخل کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ شریف خاندان کے خلاف اس کیس میں ایف آئی اے یا نیب سے الگ سے کوئی مواد اکٹھا نہیں کیا بلکہ جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کیے گئے مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیا اور ایف آئی اے اور نیب کی طرف سے جو دستاویزات جے آئی ٹی کو دی گئیں وہ جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہیں۔

تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے دوران جرح کہا کہ نواز شریف کے اثاثوں کا چارٹ انہوں نے تیار نہیں کیا ،ْنہ وہ کبھی جے آئی ٹی کی کارروائی کے ساتھ منسلک رہے اور نہ انہوں نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا سے پوچھا کہ نواز شریف کے اثاثوں کا چارٹ کس نے بنایا خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا تفتیش کے دوران آپ کے علم میں آیا کہ جے آئی ٹی نے کوئی سیکریٹیریل اسٹاف بھی حاصل کیا تھا جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ یہ بات ان کے علم میں آئی تھی کہ جے آئی ٹی نے مختلف شعبوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں تاہم ان کی تعداد کا علم نہیں اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا تعلق کن محکموں سے تھا۔

نیب کے تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ریفرنس کے کسی گواہ نے نہیں کہا کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بے نامی جائیداد کے اصل مالک نواز شریف ہیں یا حسین نواز ایون فیلڈ پراپرٹیز کو نواز شریف کی بے نامی جائیداد کے طور پر رکھتے ہیں جبکہ تفتیش کے دوران ایسی کوئی دستاویز یا رسید نہیں ملی جس سے ظاہر ہو کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کے خریدار نواز شریف ہیں۔

اس سے قبل نیب کے تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے 2 مئی کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے نواز شریف پبلک آفس ہولڈ کرتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے ،ْ انہوں نے نیلسن اور نیسکول لمیٹڈ کے ذریعے بے نامی دار کے نام پر فلیٹس خریدے تھے۔تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملزمان لندن جائیداد کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے جو 1993 سے نواز شریف اور دیگر نامزد ملزمان کے زیر استعمال ہیں۔

تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے کہا تھا کہ حسن، حسین، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نے نواز شریف کی کرپشن میں معاونت کی جس پر یہ ملزمان نیب قوانین کے تحت سزا کے حقدار ہیں۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کردیا تھا۔نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے جاچکے ہیں۔