غیر تربیت یافتہ افرادی وسائل کو باصلاحیت بنا کر پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ملک بن سکتا ہے،صنعتی و تعلیمی ماہرین

پیر 7 مئی 2018 19:17

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مئی2018ء) ملک کے صنعتی اور تعلیمی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان افرادی قوت کی دولت سے مالا مال ہے ۔ اس غیر تربیت یافتہ افرادی وسائل کو باصلاحیت بنا کر پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ملک بن سکتا ہے جبکہ ملک کی جامعات اور صنعتوں کے درمیان تعلق نہ ہونے کے باعث ہمارے باصلاحیت نوجوان ہاتھوں میں ڈگری لیے بے روزگار گھوم رہے ہوتے ہیں ۔

جامعات ، صنعتی ، ضروریات کو پیش نظر رکھ کر تعلیمی نصاب مرتب اور تحقیق کے موضوعات طے کر یں تو نہ صرف ملکی معیشت مضبو طہو گی بلکہ معاشرے میں صحت مند تبدیلی آئیگی ۔ انہوں نے یہ بات ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے اوجھا کیمپس میں منعقدہ پہلی سالانہ اکیڈیمیا انڈسٹری لنکیج سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

(جاری ہے)

جس کا انعقاد ڈاؤ یونیورسٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے اشتراک سے کیا تھا ۔

سمٹ سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عبدالحسیب خان نے کہا کہ پاکستان میں اکیڈیمیا اور انڈسٹری میں کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ آج پہلی بار باضابطہ قائم ہو رہا ہے ۔ اب ترقی کے دروازے ہم پر کوئی بند نہیں کر سکتا کیونکہ اکیڈیمیا اور انڈسٹری سرجوڑ کر بیٹھ جائے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ ترقی کے درست راستے کا تعین نہ ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت وقت ضائع ہو چکا ۔

اب نہیں ہونا چاہئے ۔ صنعتوں کو باصلاحیت افراد کی ضرورت ہے اور صرف جامعات ہی یہ ضرورت پوری کر سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے بلوچستان کے جس پہاڑ کے نیچے دنیا کی سب سے قیمتی معدنیات دفن ہیں ۔ اس پہاڑ کے دامن میں ہمارے بچے اور خواتین بھوک سے مر رہے ہیں ۔ ہمارے بچے اور قوانین بھوک سے مر رہے ہیں ۔ دولت کے ان پہاڑوں کو کھود کر ملکی آبادی کی بھوک مٹائی جا سکتی ہے اور یہ کام صرف حکومت کا نہیں ہے ۔

یہ اکیڈیمیا اور انڈسٹری کو مل کر کرنا ہے ۔ سمٹ سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر زاہد سعید ، ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی ، ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر سندھ انجینئر جاوید میمن ، یونیورسٹی کی پرووائس چانسلر پروفیسر زرناز واحد ، عبدالقیوم ، حسنین عزیز ، راؤ شکیل احمد ، ڈاکٹر شوکت علی ، اقتدار صدیقی نے بھی خطاب کیا ۔

اس موقع پر یونیوسٹی کے پرو وائس چانسلرز پروفیسر خاؤ سعید جمالی ، پروفیسر محمد مرور ، رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی ، سمیت طلباء اور اساتذہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔ زاہد سعید نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کپاس کی ایک کروڑ 30 لاکھ ( 13 ملین ) بیلز کی پیداوار ہے اور انہیں برآمد کرکے صرف 13 ملین ڈالرز ہی حاصل کر پاتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش جیسا ملک جہاں ایک گرام کاٹن پیدا نہیں ہوتی ، وہ ہماری کاٹن کو پراسیس کرکے 28 ملین ڈالر کماتا ہے ۔

بس یہی وہ خلاء ہے ، جسے ہم یونیورسٹی کی ریسرچ کے ذریعے پر کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی گریجویس کو فارما انڈسٹری میں ہم زیرو سے تربیت دیتے ہیں ۔ نصاب تبدیل کیے بغیر جامعات ، صنعتوں کو تربیت یافتہ افرادی قوت فراہم نہیں کر سکتیں ۔ ہمارے فارماسسٹ کو بین الاقوامی ریگولیشن پڑھائے جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے خام مال سے تیار دوائیں یورپی ممالک کو ایکسپورٹ کریں ۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی نے کہا کہ سائنس بیڈ پروجیکٹس پاکستان میں انڈسٹری کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکے ہیں ۔ ڈاؤ یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے جلد ہی بزنس انکو بیشن سینٹر قائم کر رہی ہے ۔ بی آئی سی ، اکیڈیمیا اور انڈسٹری کا تکون ( ٹرائی اینگل ) ملکی صنعتی اور اقتصادی ترقی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا ۔

اکیڈیمیا انڈسٹری لنکیج کے ہم نے آغاز کر دیا ہے ۔ اب اس مت میں پیش قدمی ہونی چاہئے ۔ ایف پی سی سی آئی کے نمائندے بلال احمد نے کہا کہ پاکستان 104 بلین کی مارکیٹ ہے ۔ ہماری ضروریات 205 ڈالر فی کس سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہیں ۔ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ 25 لاکھ خواتین مختلف امراض کا شکار ہو کر مر جاتی ہیں ۔ یہ مسائل ہم سب کو مل کر حل کرنے ہیں ۔

صرف حکومت یہ سب کچھ نہیں کر سکتی ۔ ایچ ای سی کے ریجنل ڈائریکٹر ماریہ میمن نے کہا کہ انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کے درمیان رابطے بڑھانے کے لیے اعلی تعلیمی کمیشن فنڈز فراہم کر رہا ہے اور ملک بھر میں 25 بزنس انکوبیشن( Bic ) سینٹر قائم کیے جا رہے ہیں ۔ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسرز ناز واحد نے کہاکہ اکیڈیمیا انڈسٹری لنکیج ویک کے اختتام پر 12 مئی کو اوجھا کیمپس میں صنعتی پروجیکٹس کی نمائش کا انعقاد کیا جائے گا ۔ جو ہماری یونیورسٹی کے طلباء نے اساتذہ کی نگرانی میں تیار کیے ہیں ۔ تقریب کے آخر میں یونیورسٹی کی جانب سے رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی نے میڈکس لیبارٹریز اور نووا کیئر کے نمائندوں کے ساتھ تحقیقی کاموں کے لیے مفاہمت کی یادداست پر دستخط کیے ۔