میڈیا کوخبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں میں سنسنی خیزی سے گریز کرنا چاہئیے، الیکٹرانک میڈیا میں خبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں میں پروڈیوسروں کا کردار کم ہواہے جس کی وجہ سے مبنی برحقیقت رپورٹنگ کی بجائے سنسنی خیزی کا عنصرزیادہ ابھرکرسامنے آیا ہے ،

نوجوانوں کی اکثریت اب ٹی وی چینلوں کی بجائے سوشل میڈیا پرتوجہ دے رہی ہے جو ٹی وی کی صنعت کیلئے لمحہ فکریہ ہے وفاقی دارالحکومت میں پہلی ’’ پاکستان سمٹ ‘‘ میں میڈیا اورسنسنی خیزی کے موضوع پر منعقدہ سیشن سے مقررین کا خطاب

پیر 7 مئی 2018 20:36

اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 مئی2018ء) میڈیا کوخبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں میں سنسنی خیزی سے گریز کرنا چاہئیے، الیکٹرانک میڈیا میں خبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں میں پروڈیوسروں کا کردار کم ہواہے جس کی وجہ سے مبنی برحقیقت رپورٹنگ کی بجائے سنسنی خیزی کا عنصرزیادہ ابھرکرسامنے آیا ہے ، نوجوانوں کی اکثریت اب ٹی وی چینلوں کی بجائے سوشل میڈیا پرتوجہ دے رہی ہے جو ٹی وی کی صنعت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

ان خیالات کااظہار مارٹن ڈائو گروپ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں اپنی طرز کی پہلی ’’ پاکستان سمٹ ‘‘ میں میڈیا اورسنسنی خیزی کے موضوع پر منعقدہ سیشن سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس کا موضوع ’روشن مواقع کی تلاش ‘ رکھاگیا تھا۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں ممتاز شخصیات نے شرکت کی جن میں چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر محمود حیات نے کلیدی خطاب کیا ۔

پاکستان سمٹ میں مُلک کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں ، سفارت کاروں ، ممتازماہرین تعلیم،میڈیا کے نمائندگان،ڈولپمنٹ سیکٹراور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی اور ملک کے مسائل پر سیر حاصل گفتگوگی ۔ شرکاء اور پینل میں موجود ماہرین نے کئی اہم امور جیسے خطے کی سیاسی صورت حال اور پاکستان، میڈیا اور سنسنی خیزی ،سائبر سیکورٹی، پاکستان کی برانڈنگ اور روشن مواقع کی تلاش پر اپنی رائے دی۔

میڈیا اورسنسنی خیزی کے موضوع پر منعقدہ سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض ٹی وی جرنلسٹ سدرہ اقبال نے انجام دئیے جبکہ پینل میں ٹی وی ون اورانٹرفلوگروپ کے چئیرمین طاہراے خان اورپی ٹی وی کے سابق ایم ڈی ارشدخان نے حصہ لیا۔مقررین نے کہاکہ میڈیا میں سنسنی خیزی کاعمل صرف مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے، نائن الیون کے بعد امریکہ کے مرکزی میڈیا نے سازشی تھیوریوں کو بڑھا چڑھاکرپیش کیا، امریکہ کے مرکزی میڈیا نے یہی کردار عراق ، افغانستان اورشام کی جنگ میں بھی ادا کیاہے۔

مقررین نے کہاکہ میڈیا کوخبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں میں سنسنی خیزی سے گریز کرنا چاہئیے، الیکٹرانک میڈیا میں خبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں میں پروڈیوسروں کا کردار کم ہواہے جس کی وجہ سے مبنی برحقیقت رپورٹنگ کی بجائے سنسنی خیزی کا عنصرزیادہ ابھرکرسامنے آیا ہے ، نوجوانوں کی اکثریت اب ٹی وی چینلوں کی بجائے سوشل میڈیا پرتوجہ دے رہی ہے جو ٹی وی کی صنعت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خبروں اورحالات حاضرہ کے پروگراموں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اورایسے میں ڈولپمنٹ کا شعبہ نظرانداز ہوجاتاہے ۔ مقررین نے بریکنگ نیوز کے چکر میں سنسنی پھیلانے کے رحجان کی مخالفت کی اورکہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ میں مروجہ صحافتی اقدار اوروقواعد کا پاس رکھا جائے۔ انہوں نے کہاکہ نسلی اورمذہبی اقلیتوں کے مسائل کو اجاگرکرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے تاہم ایسا کرنے میں ناظرین کو اکسانے کی بجائے انہیں صورتحال سے باخبررکھنے پرتوجہ مرکوزکرنی چاہئیے۔

سنسنی خیزی کے عمل نے میڈیا کی ساکھ پراثرات مرتب کئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ٹی وی کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔کانفرنس کے دوران ’’خطے کی سیاسی صورت حال اور پاکستان‘‘ کے سیشن میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب عبداللہ حسین ہارون نے شرکاء کو پاکستان اورخطے کی صورتحال، سی پیک کے پاکستان پراثرات، پاک امریکا تعلقات کے نشیب وفراز اورچین کے ون بیلٹ ون روڈ اقدام بارے تفصیلی طورپرآگاہ کیا اورکہاکہ چین کی قیادت کا یہ منصوبہ ایک نئی دنیاء کی تشکیل میں کلیدی کردارادا کریگا۔

انہوں نے 1965اور1971کی جنگوں میں دوست اورمسلمان ممالک کے پاکستان کے ساتھ تعاون اورامریکہ کے کردار پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔انہوں نے کہاکہ امریکا پر قرضوں کا حجم 20ٹریلین ڈالر ہے اوراس میں اضافہ ہورہاہے۔انہوں نے معیشیت کو مستحکم بنیادوں پراستوارکرنے اورقرضہ لینے کے رحجان میں کمی پر زوردیا۔