تھیلی سیمیا کا مرض کزن میرج سے ہوتا ہے،اس سے بچے کی زندگی ضائع ہوتی ہے،مریم اورنگزیب

ماں باپ میں سے کسی کو تھیلی سیمیا ہو تو بچے میں منتقل ہوتا ہے، اس موذی مرض سے چھٹکارا ممکن نہیں ، تھیلی سیمیا کے مریض کا علاج صرف خون کی تبدیلی ہے،پولیو مرض کے معاملے پر بھی ہمیں کامیابی ملی ، کم عمری کی شادیوں پر والدین کو سوچنا چاہیے، ان فیصلوں سے لوگوں کی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں،2013کے مقابلے میں آج پولیو میں نمایاں کمی واقع ہوئی ، ریڈیو پاکستان پر بھی تھیلیسمیا کے حوالے سے پروگرام نشر کیا جائے گا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا تھیلی سیمیا کے حوالے سے تقریب سے خطاب

پیر 7 مئی 2018 21:43

تھیلی سیمیا کا مرض کزن میرج سے ہوتا ہے،اس سے بچے کی زندگی ضائع ہوتی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 مئی2018ء) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ تھیلی سیمیا کا مرض کزن میرج سے ہوتا ہے،اس سے بچے کی زندگی ضائع ہوتی ہے،ماں باپ میں سے اگر کسی کو تھیلی سیمیا ہو تو بچے میں منتقل ہوتا ہے، اس موذی مرض سے چھٹکارا ممکن نہیں ، تھیلی سیمیا کے مریض کا علاج صرف خون کی تبدیلی ہے،پولیو کے مرض کے معاملے پر بھی ہمیں کامیابی ملی ہے، کم عمری کی شادیوں پر بھی والدین کو سوچنا چاہیے، ان فیصلوں سے لوگوں کی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں،2013کے مقابلے میں آج پولیو کے مرض میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، ریڈیو پاکستان پر بھی تھیلیسمیا کے مرض کے حوالے سے پروگرام نشر کیا جائے گا۔

پیر کو نیشنل پریس کلب میں تھیلی سیمیا کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ تھیلی سیمیا کا مرض کزن میرج سے ہوتا ہے،اس سے بچے کی زندگی ضائع ہوتی ہے، اس مرض کا شکار بچے کے والدین کرب سے گزرتے ہیں، ہمارے رویے اور کام جو کسی کی زندگی کو ضائع کرتا ہے، ایسے معاملات میں ہمیں سوچ سمجھ کرقدم اٹھانا چاہیے، اس کیلئے چاہے ہمیں اپنی روایت کو بدلنا پڑے گا،ماں باپ میں سے اگر کسی کو تھیلی سیمیا ہو تو بچے میں منتقل ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ڈبلیو ایچ او اور دیگر تنظیموں نے بہت کام کیا ہے، پولیو کے مرض کے معاملے پر بھی ہمیں کامیابی ملی ہے، 2013کے مقابلے میں آج پولیو کے مرض میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، ہم نے اس مرض کے خلاف جنگ لڑی ہے، اس معاملے پر عوام نے ساتھ دیا، عوام کی مرضی کے بغیر حکومتیں یا ٹرسٹ اس طرح کے موذی امراض پر قابو نہیں پا سکتے، ہم تھیلی سیمیا کے مرض سے آگاہی کا پروگرام شروع کر رہے ہیں، ریڈیو پاکستان پر بھی تھیلی سیمیا کے مرض کے حوالے سے پروگرام نشر کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات نے کہا کہ میری نجی میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ آپ اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں، آپ کی کوشش اور کاوش ایک زندگی کو بچا سکتی ہے، آپ وفاقی اور صوبائی حکومت کے بازو بن سکتے ہیں، ہر کسی کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا، جب تک ہر کسی کا حصہ نہیں ہو گا اس موذی مرض سے چھٹکارا ممکن نہیں ،اس کوشش میں سب کو اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہیلتھ پروگرام کے تحت تھیلی سیمیا کے مریض اپنا علاج کرا سکتے ہیں،اس کارڈ پر والدین اپنے بچوں کا بھی علاج کرا سکتے ہیں، اس مرض کے خاتمہ کیلئے اجتماعی سوچ ضروری ہے، ہمیں ویلفیئر ٹرسٹس کی مدد کی بھی ضرورت ہے، کم عمری کی شادیوں پر بھی والدین کو سوچنا چاہیے، ان فیصلوں سے لوگوں کی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں، تھیلی سیمیا کے مریض کا علاج صرف خون کی تبدیلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر آگاہی کی ضرورت ہے تا کہ اس مرض سے بچا جا سکے اور بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں، والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کا علاج کرا رہے ہیں۔