حضرت لال شہباز قلندر کے 766 ویں عرس مبارک کے موقع پر محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے شہباز ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا

پیر 7 مئی 2018 22:16

سہون شریف (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مئی2018ء) حضرت لال شہباز قلندر کے 766 ویں عرس مبارک کے دوسرے روز محکمہ ثقافت سندھ کی طرف سے منعقد کردہ شہباز ادبی کانفرنس میں ملک کے نامور ادیبوں، دانشوروں اور محققوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حضرت لال شہباز قلندر کی زندگی ، شاعری، فلسفے اور فکر کو زیادہ اجاگر کرنے کے لئے سہون شہر میں ایک جدید قسم کا تحقیقی مرکز قائم کرکے وہاں پر سندھی، اردو، فارسی، انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں قلندر لال شہباز سے متعلق شایع شدہ مواد کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جائے تاکہ حضرت لال شہباز قلندر سے جڑے مختلف اقسام کے ابہام ختم کرکے ان کے لافانی فکر اور فلسفے کو دنیا میں زیادہ روشناس کرایا جائے۔

شہباز ادبی کانفرنس میں نامور دانشور پروفیسر کے ایس ناگپال نے ’’قلندر کی سب پر ایک جیسی نظر‘‘ کے عنوان پر اپنے مقالے میں کہا کہ آج ادبی کانفرنس میں جن دانشوروں نے اپنے مقالے پیش کئے ہیں ان میں تحقیق کے لئے نیا مواد ملا ہے ، قلندر کے لفظی معنی داتا، بے پرواہ، سخی اور بادشاہ ہے، قلندر کا نام یورپ اور آفریکا میں بھی لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سندھ کی پہچان ہیں، نوبت کے بجنے کو اگر غور سے سنا جائے تو آدمی پر وجد طاری ہوجاتا ہے اور وہ دھمال ڈالنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ عشق وہ ہے جو براہ راست محبوب سے ملاتا ہے، شہباز کی پرواز کتنی اور کیسی ہے یہ وہ خود ہی جانتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے ڈاکٹر رمضان بامری بلوچ نے ’’لال شہباز قلندر کی فارسی شاعری کا جائزہ‘‘ کے موضوع پر مقالا پڑہتے ہوئے کہا کہ سندھ دہرتی پر 200 سو سالوں پر فارسی زبان کی راج رہا ہے، لال سائیں نے لوگوں کے بیچ میں رہ کر معاشرے سے برائیاں ختم کیں اور حقیقت میں یہی قلندری ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر صوفی بزرگ راج کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قلندر قلندر تو کہتے ہیں مگر قلندر کے فلسفے سے ناوافق اور ناآشنا ہیں، قلندر اپنی آسائشوں کی فکر نہیں کرتا مگر وہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ لاہور وومین کالیج یونیورسٹی کی ڈاکٹر انجم طاہرہ نے اپنے مقالے میں کہا کہ ایران ، وسطی ایشیا اور سندھ کی دھرتی کے چاروں اطراف اولیاء کرام، قطب اور بزرگ ہستیاں موجود ہیں، لال شہباز قلندر محبت کے سفیر تھے، ان کے کلام میں عشق الاہی کے رنگ کے علاوہ اور کوئی دوسرا رنگ نہیں تھا۔

یونیورسٹی آف پنجاب کے شعبہ فارسی کے ہجویری تصوف چیئر کے سربراہ ڈاکٹر غلام معین الدین نظامی نے اپنے مقالے میں کہا کہ لفظ قلندر سے حضرت عثمان مروندی کی طسماتی شخصیت سامنے آتی ہے، جہاں جہاں بھی اسلام پھیلاہے ان سرزمینوں پر قلندر کا لفظ موجود ہے، ایران میں کتنے ہی گائوں ایسے ہیں جن کا نام قلندر یا قلندریہ ہے، محققوں کے پاس تصوف کی طرح قلندر کے معنی کے حوالے سے اختلافات موجود ہیںاور وہ کسی بھی ایک معنی پر متفق نہیں ہیں، قلندری ایسی پراسرار کیفیت ہے جس کا کوئی بھی کنارہ نہیں ، قلندر ظاہر اور باطن میں سچا شخص ، حق اور سچ کی بات کرنے والااور دنیا کی کسی بھی لالچ اور خوف سے پاک ہوتاہے۔

نامور دانشور تاج جویو نے اپنے مقالے میں کہا کہ شہباز ادبی کانفرنس میں پہلی بار فارسی کے تین پروفیسرز نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے ہیں، محققوں کے درمیان قلندری روایتوں کے سلسلے میں اختلافات ملتے ہیں ، ہم ادیب اور شعراء کرام ہر سال یہ رونہ روتے رہتے ہیں کہ یہ قلندر کا شعر ہے اور یہ نہیں ہے اس لئے محققین کو تحقیق کرنی چاہئے، سومرا دور سندھ کا آزاد دور تھا، معلوم نہیں اس دور پر تاریخدان تحقیق کرنے سے کیوں کتراتے ہیں، قلندر لال شہباز سے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ ماہ یا ایک سال سندھ میں رہا تھایہ بالکل غلط ہے، چھ ماہ میں لوگ کسی کے عقیدتمند نہیں بن جاتے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت لال شہباز قلندر کی زندگی پرمزید تحقیق ہونی چاہئے اور لال سائیں سے متعلق جن بھی زبانوں میں مواد موجود ہے ان کو جمع کرکے ہمعصر شعراء کرام کے مواد کو جمع کرکے اس پر تحقیق کی جائے، اس مقصد کے لئے محکمہ ثقافت کو سہون شریف میں ایک تحقیقی مرکز قائم کرنا چاہئے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سندھی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عابد مظہر نے ’’لال شہباز قلندر کا صوفی سلسلا‘‘ کے موضوع پر مقالا پیش کیا، جبکہ کراچی یونیورسٹی شعبہ سندھی کے پروفیسر ڈاکٹر شیر مہرانی نے ’’ لال شہباز قلندر کے دور کے متعلق تاریخی حقائق‘‘ پر مقالا پیش کیا،۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر جامشورو کیپٹن (ر) فرید الدین مصطفی، ڈائریکٹر کلچر اعجاز شیخ، نصیر مرزا، ڈپٹی ڈائریکٹر نزاکت علی فاضلانی، ڈپٹی ڈائریکٹر کلچر سلیم سولنگی، حبیب اللہ اور دیگر اعلی عملدار موجود تھے۔ ادبی کانفرنس میں سندھ و ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے ادیبوں اور ادب سے چاہ رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔