سابق مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کے ذمے دار کو نہیں چھوڑیں گے۔چیف جسٹس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 8 مئی 2018 12:58

سابق مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 مئی۔2018ء) چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا پی آئی اے کو برباد کرکے رکھ دیاگیا، پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کے ذمے دار کو نہیں چھوڑیں گے۔ سپریم کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ ٹیکس کے پیسے کوپی آئی اے والے کھاتے جا رہے ہیں، ادارے کو نقصان پہنچانے والے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑیں گے۔

سپریم کورٹ میں پی آئی اے نجکاری کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم اور مہتاب عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے مہتاب عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے میں نقصان آپ کے دور میں نہیں ہوا،آپ بیٹھ کر دیکھیں پی آئی اے میں ہوا کیا ہے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے 2008سے 2017تک مالی حالات پر پروجیکٹر پر بریفنگ لی۔

ماہر اقتصادیات فرخ سلیم نے پروجیکٹر پر سپریم کورٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 2008میں پی آئی اے کا خسارہ 36ارب روپے تھا،پی آئی اے کی 2008 میں ریونیو آپریشنل کاسٹ 129 ارب روپے تھی،سال 2016 میں ریونیوآپریشنل کاسٹ 134 ارب روپے تھی،سال 2008 میں پی آئی اے کا ریونیو 89 ارب روپے تھا،سال 2016 میں پی آئی اے کا ریونیو 89 ارب روپے تھا،سال 2008 میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 73 ارب روپے تھا ،سال 2008سے ا بتک پی آئی اے کامجموعی خسارہ 360 ارب روپے ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2008 میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 73 ارب روپے تھا ،سال 2008 سے خسارہ بڑھ کر 360 ارب ہو گیا،یہ خسارہ آخری دوحکومتوں کے دور میں ہوا۔فرخ سلیم نے کہا کہ 88 فیصد خسارہ گزشتہ دس سال کا ہے، 2013سے 2017 کے درمیان 197 ارب کا نقصان ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2013 میں ہوا بازی کا نیا ادارہ بنایا گیا،شجاعت عظیم کو ہوا بازی کا مشیر مقرر کیا گیا تھا۔

فرخ سلیم نے کہا کہ 2008 سے 2017 تک پی آئی اے کے 412 ارب کے واجبات ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پی آئی اے کے لیے پیسہ کہاں سے آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے کو پیسہ ٹیکس کا جاتا ہے،ٹیکس کے پیسے کوپی آئی اے والے کھاتے جا رہے ہیں۔فرخ سلیم نے کہا کہ اس پر نقصان کی وجہ سیاسی اثررسوخ پیکج اور ایسوسی ایشن پالیسی ہے،گزشتہ 10 سال میں پی آئی اے میں تقرریاں سیاسی بنیادوں پرہوئیں، پی آئی اے میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی والی7 یونینز ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013 سے 2016 تک جہاز لیز پر لیے گئے،جہاز لیز پر لینے کے وقت ایم ڈی کون تھے؟فرخ سلیم نے جواب دیا کہ 2016 میں لیز پر لیے گئے جہازوں کے لیے 9 ارب ادا کیے گئے،2008 سے 2017 تک 45 جہازوں کو لیز پر لیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسے جہازوں کے لیے اسپئیر پارٹس کی خریداری پر پیسہ خرچ ہوا،ایسے جہازوں کے اسپئیر پارٹس بھی خریدے گئے جو ہمارے پاس نہیں۔

فرخ سلیم نے کہا کہ 1990 سے پی آئی اے کے پاس اسپئر پارٹس پڑے ہیں،جوآج تک استعمال نہیں ہوئے،لیز کے جہاز گراﺅنڈ ہونے سے 6.67 ارب روپے کا نقصان ہوا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جہازچلے گا تو نفع آئے گا،لیز پر جہاز لےکر گراﺅنڈ کر دیے گئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہاز کو گراﺅنڈ کرنے سے 36 ارب کا نقصان ہوا۔فرخ سلیم نے کہا کہ 2013میں پی آئی اے کے دو لاکھ 87 ہزار ٹکٹس بانٹے گئے، ٹکٹوں کی تقسیم سے 5 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کس کو یہ پی آئی اے کے ٹکٹس مفت دیئے گئے؟ مفت ٹکٹس تقسیم کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے،پراسیکوٹر نیب آپ یہاں موجود ہیں آپ بھی دیکھیں۔فرخ سلیم نے کہا کہ پی آئی اے کے کارگو نقصانات کا جائزہ لینا ہوگا،2016 میں پی آئی اے کے میڈیکل اخراجات 3 ارب روپے کے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمین کی انشورنس کروانے سے ایک ارب کے اخراجات ہوتے۔

فرخ سلیم نے کہا کہ 2000 میں پی آئی اے شیئرز کا ریٹ 53 فیصد تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی ایئرلائینزکے شیئرز کی قیمت کم کیسے ہوئی؟کیا ہمارے پاس جہاز کم تھے یا روٹ فروخت کئے گئے؟فرخ سلیم نے جواب دیا کہ 2017 میں شیئرز کی ویلیو 22 فیصد ہوگئی،مشرق وسطیٰ کی پروازیں ہفتے میں 546 ہو گئیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق ایم ڈیز ان سوالات کا جواب مجموعی طور پر دینگے یا الگ الگ؟ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوا دوں ؟چیف جسٹس نے عدالت میں موجود سابق مشیر ہوابازی شجاعت عظیم کی سزنش کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت عظیم آپ عدالت میں جیب سے ہاتھ نکال کر کھڑے ہوںآپ ملک سے باہر نہیں جا سکتے، یہ سب نقصان آپ کے دور میں ہو۔

شجاعت عظیم نے کہا کہ میں دو سال مشیر ہوا بازی رہا،میرا تعلق پی آئی سے نہیں تھا، جب آیا تو اسلام آباد ایئرپورٹ کی حالت بری تھی، میں ایڈوائزز بنا تھا،دوہری شہریت پر ایک ماہ میں نکال دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو دینا ہے تحریری طور پر دیں،کھانے پینے کے ٹھیکے کس کو دیے گئے؟آپ اتنے پرتجسس کیوں ہیں کہ آپ کو سنا جائے؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کاہوابازی کاتجربہ کیاہے، جس پر شجاعت عظیم نے بتایا کہ میں کینیڈامیں کنسلٹنٹ رہاہوں، جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کانام ای سی ایل میں ڈال رہے ہیں، اس معاملے کی تحقیقات ہونی ہے، دیکھیں گے اتنے بڑے خسارے کا ذمہ دارکون ہے، فریقین سوچ سمجھ کر جواب دیں، ہوسکتا ہے میں خود تحقیقاتی کمیٹی کا چیئرمین بنوں۔

چیف جسٹس نے شجاعت عظیم سے استفسار کیا کہ کس بنیادپرآپ کی تقرری ہوئی، کیاآپ کی تقرری سیاسی بنیاد یا پھراقرباپروری پر نہیں ہوئی؟ پی آئی اے کا بیڑاغرق کرکے رکھ دیا، ہرآدمی کہتا ہے ملک کا نقصان نہیں کیا، کیا آسمان سے فرشتے آکر اربوں روپے کھا گئے، بتانا پڑے گا آپ کی مشیرہوا بازی تقرری کیسے ہوئی، اس ملک کا ایک پیسہ جانے نہیں دیں گے۔چیف جسٹس نے مشیر ہوابازی سردار مہتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا سردارمہتاب صاحب آپ ایماندارآدمی ہیں، آپکے دور میں ایک پیسہ بھی ادھر ادھر نہیں ہوا، ہرمرتبہ پی آئی اے کے پیسے کے مزے لوٹ لئے جاتے ہیں، کیٹرنگ کے ٹھیکے کس کو دیئے گئے ہیں، معلوم ہے، کس نے ہاﺅسنگ سوسائٹی بنائی سب معلوم ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عوام کوکہہ دیتے ہیں خیرات جمع کرکے پی آئی اے کوبحرانوں سے نکالے، ہم نیشنل کیریئر اور اپنے جھنڈے کو نیچے نہیں ہونے دے گی، عباسی صاحب آپ کواس معاملے کی تحقیقات کراناچاہیے تھی، پی آئی اے کو بجٹ میں 20بلین روپے دیے گئے، ایک شخص پی آئی اے کا جہاز لے کر جرمنی چلا گیا۔چیف جسٹس نے سردار مہتاب عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا جہاز میوزیم میں رکھنے کے لیے لیا گیا؟ اب مٹی پاﺅ والی پالیسی نہیں چلے گی، آپ قوم کے لیڈر ہیں۔سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں خلاف ضابطہ8بھرتیوں پرنوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین سے15روزمیں پریزنٹیشن پرجواب طلب کرلیا۔