سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں ذمہ دارسابق اعلی فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا

ایف آئی اے نے عدالتی احکامات کی روشنی میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کودوبارہ بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ذرائع کا انکشاف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 8 مئی 2018 13:52

سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں ذمہ دارسابق اعلی فوجی افسران کے خلاف ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 مئی۔2018ء) سپریم کورٹ نے اصغر خان علمدر آمد کیس کی سماعت کے دوران 1990 کے انتخابات میں دھاندلی میں ذمہ دارسابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اورڈی جی ایف آئی اے عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اصغر خان کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جا چکی ہیں، اب عدالتی فیصلہ پرعمل درآمد ہونا ہے، عدالتی فیصلوں پرمن وعن عمل ہونا چاہیے، فیصلہ میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم حکومت کودیا گیا لیکن وفاقی حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد آج تک کوئی ایکشن نہیں لیا، ایف آئی اے کی تحقیقات بھی ایک جگہ پررک گئی، یہ نہیں معلوم آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنتا ہے یا نہیں، معاملہ ایف آئی اے میں جانا ہے یا نیب میں جانا ہے؟۔

(جاری ہے)

کیا سابق فوجی افسروں کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ سابق فوجی افسروں کا ملٹری کورٹ میں ٹرانزٹ ہونا چاہیے، آئین کی ہرخلاف ورزی آرٹیکل 6 کے زمرے میں نہیں آتی، سابق فوجی افسروں کا ٹرائل کہاں ہوگا یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے، پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کا فیصلہ حکومت نے کیا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ اگرکوئی جرم ہوا ہے تو اسکا ٹرائل ہونا چاہیے، اسد درانی اوراسلم بیگ کے بیانات قلمبند نہیں ہوئے، اب ایف آئی اے ان لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرے گی، فوجداری ٹرائل ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد ہوگا۔

اصغر خان مرحوم کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف ایکشن اور دیگر کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔ عدالت کے سامنے اصغر خان کیس میں بڑے انکشافات ہوئے، سابق فوجی افسران کے جرم کا آرمی ایکٹ، الیکشن ایکٹ اور آئین کے تحت جائزہ لیا جائے، ملٹری کورٹ میں کس جرم کا ٹرائل ہوگا یہ طے ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ حکومت 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف ایک ہفتہ میں کارروائی کا فیصلہ کرے، یہ فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ فیصلہ کے لیے دو ہفتے دے دیں جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہوگی-دوسری جانب ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) نے اصغر خان کیس میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کودوبارہ بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اسلم بیگ اور اسد درانی سے1990 کے انتخابات میں نوازشریف سمیت35 سیاستدانوں اور صحافیوں کوادا کی گئی رقم سے متعلق ثبوت مانگے جائیں گے۔ذرائع ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اصغر خان کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نئی کمیٹی تشکیل دیے جانے کا امکان ہے، ایف آئی اے اس اقدام سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی مدنظر رکھے گی۔

سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران اسلم بیگ اور اسد درانی کی نظرثانی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمدر سے متعلق ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کیا تھا۔عدالت نے کہا تھا کہ ڈی جی ایف آئی اے بتائیں کہ انہوں نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے۔یاد رہے کہ1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل اور انتخابات میں دھاندلی کے لیے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے گزشتہ روز مسترد کیا گیا۔