صوبوں اور آزاد کشمیر کی جیلوں میں گنجائش سے 57فیصد زائد قیدی رکھنے کا انکشاف

جیلوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 83718 ‘ صرف گلگت بلتستان کی جیلوں میں گنجائش سے کم قیدی ہیں‘ جیلوں میں خواتین قیدیوں کی کل تعداد 1527 ،قید بچوں کی تعداد 1194 ‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں عورتوں اور بچوں کے لئے کوئی جیل نہیں ، اسلام آباد اور فاٹا میں عام قیدیوں کے لئے بھی کوئی جیل نہیں‘ جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے زیادہ تعداد کے باعث نہ صرف قیدیوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما متاثر ہورہی ہے بلکہ وہ منفی سرگرمیوں سمیت انتہا پسندی کی طرف راغب ہورہے ہیں‘ رپورٹ پاکستان میں لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر بھول جانے کی روایت ہے‘ لوگ سالہاسال تک قید رہنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوتے ہیں‘ جیلیں اصلاح کی بجائے جرائم پیشہ افراد کی منفی تربیت اور انتہا پسندی کا مرکز بن گئی ہیں نیشنل کوآرڈی نیٹر نیکٹا احسان غنی کا نیکٹا اورآئی سی آر سیکے زیر انتظام رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے خطاب

منگل 8 مئی 2018 18:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 مئی2018ء) پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی جیلوں میں گنجائش سے 57فیصد زائد قیدی رکھنے کا انکشاف ہوا ہے‘ جیلوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 83718 ہے‘ صرف گلگت بلتستان کی جیلوں میں گنجائش سے کم قیدی ہیں‘ گلگت بلتستان کی جیلوں میں 374قیدی ہیں جبکہ ان جیلوں میں 740قیدیوں کی گنجائش ہے‘ جیلوں میں خواتین قیدیوں کی کل تعداد 1527جبکہ قید بچوں کی تعداد 1194 ہے‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں عورتوں اور بچوں کے لئے کوئی جیل نہیں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا میں عام قیدیوں کے لئے بھی کوئی جیل نہیں‘ جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے زیادہ تعداد کے باعث نہ صرف قیدیوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما متاثر ہورہی ہے بلکہ وہ منفی سرگرمیوں سمیت انتہا پسندی کی طرف راغب ہورہے ہیں‘ نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا احسان غنی نے کہا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر بھول جانے کی روایت ہے‘ لوگ سالہاسال تک قید رہنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوتے ہیں‘ جیلیں اصلاح کی بجائے جرائم پیشہ افراد کی منفی تربیت اور انتہا پسندی کا مرکز بن گئی ہیں۔

(جاری ہے)

منگل کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد سے متعلق قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی ( نیکٹا) اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے زیر انتظام رپورٹ کے اجراء کی تقریب منعقد ہوئی ‘ تقریب میں نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا احسان غنی‘ آئی سی آر سی کے نمائندے‘ انسداد جرائم کے ماہرین‘ سول سوسائٹی ‘ وکلاء اور غیر ملکی مندوبین نے بھی شرکت کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں موجود گنجائش سے 57فیصد زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں جیلوں کی کل تعداد 112ہے ان میں قیدیوں کی گنجائش 53744 قیدیوں کی ہے جبکہ اس وقت ملک کی جیلوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 83718 ہے‘۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور وفاق کے زیر انتظام چلنے والے علاقے فاٹا میں کوئی جیل نہیں۔

پنجاب میں 40چھوٹی بڑی جیلیں ہیں جن میں بچوںکے لئے دو اور عورتوںکے لئے ایک جیل بھی شامل ہے جبکہ سندھ میں 26 جیلیں ہیں‘ سندھ میں خواتین کے لئے تین‘ بچوںکے لئے پانچ جیلیں ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 22جیلیں ہیں جہاں عورتوں کے لئے کوئی جیل نہیں اور نہ ہی بچوں کے لئے کوئی جیل ہے۔ بلوچستان کی 11جیلوں میں عورتوں اور بچوں کے لئے کوئی جیل نہیں جبکہ آزاد کشمیر کی 7جیلوں میں بھی عورتوں اور بچوں کے لئے کوئی جیل نہیں۔

گلگت بلتستان میں 6جیلیں ہیں۔ پنجاب کی جیلوں میں مجموعی طور پر قیدیوں کی تعداد 50ہزار 405 ہے جبکہ ان جیلوں میں سرکاری طور پر 30ہزار 74قیدیوں کی گنجائش ہے۔ سندھ کی جیلوں میں 18ہزار 998قیدی ہیں جبکہ ان جیلوں میں سرکاری طور پر 12ہزار 245 قیدیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ خیبرپختونخوا کی جیلوں میں 11ہزار 330قیدی موجود ہیں جبکہ یہاں سرکاری طور پر 7587قیدیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

بلوچستان کی جیلوں میں 2427قیدی ہیں جبکہ ان جیلوں میں 2585قیدیوں کی گنجائش موجود ہے۔ آزاد کشمیر کی جیلوں میں 753قیدی موجود ہیں جبکہ ان جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 513رکھی گئی تھی۔ گلگت بلتستان کی جیلوں میں 374قیدی ہیں جبکہ ان میں 740قیدیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ جیلوں میں قید عورتوں اور بچوں کی تعداد سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم اکتوبر 2017تک گلگت بلتستان میں خواتین قیدیوں کی تعداد 9‘ قید بچوں کی تعداد 12‘ آزاد کشمیر میں 25 خواتین قید ہیں جبکہ کوئی بچہ قیدی نہیں۔

بلوچستان میں 83خواتین جبکہ 47بچے قیدی ہیں ۔ خیبرپختونخوا کی جیلوں میں 267 خواتین اور 267بچے قید ہیں۔ سندھ کی جیلوں میں 228بچے اور 212خواتین قیدی ہیں۔ پنجاب کی جیلوں میں 931 خواتین جبکہ 640بچے قید ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں قید غیر ملکیوں کی کل تعداد 1117 ہے ‘ پنجاب میں 225‘ سندھ میں 811‘ کے پی کے میں 2اور بلوچستان میں 49غیر ملکی قید ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے زیادہ تعداد محکمہ جیل خانہ جات کے وسائل میں کمی جیسے گھمبیر مسائل کی نشاندہی کرتا ہے‘ جیلوں میں قید افراد میں سے دو تہائی قیدیوں کے مقدمات زیر التواء ہیں یا پھر ان کا عدالتوں میں ٹرائل چل رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے رہنے سے نہ صرف بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ قیدیوں کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما سمیت ان کے حالات بھی انتہائی خراب ہورہے ہیں اور ان کی بہتری کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے جارہے۔

رپورٹ میں کرمنلر جسٹس سسٹم سے جڑے افراد کے تحفظ اور بہبود کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے نیشنل کوآرڈینیٹر احسان غنی نے کہا کہ پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد ہے یہاں جیلوں میں ڈال کر بھول جاتے ہیں اور لوگ سالہاسال تک قید رہنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیلیں اصلاح کی بجائے جرائم پیشہ افراد کی منفی تربیت اور انتہا پسندی کا مرکز بن گئی ہیں جیلوں کو درپیش مسائل تنہا حل نہیں کئے جاسکتے۔ جیل اصلاحات کے لئے تمام شراکت داروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جیلوں میں اصلاحات کرمنل جسٹس سسٹم کا اہم پہلو ہے۔