حکومت سندھ نے کے ایم سی کو آکٹرائے ٹیکس کی مد میں 34ارب روپے کم دیئے ہیں ،میئر کراچی

کراچی پورٹ ٹرسٹ نے بھی ہمارے 80 کروڑ روپے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ،ہمارا حق مل جائے تو شہر ترقی کرے گا ،وسیم اختر کی پریس کانفرنس

بدھ 9 مئی 2018 19:19

حکومت سندھ نے کے ایم سی کو آکٹرائے ٹیکس کی مد میں 34ارب روپے کم دیئے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مئی2018ء) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ حکومت سندھ نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران آکٹرائے ضلع ٹیکس (OZT) کی مد میں کے ایم سی کو اس کے حصے سے 34 ارب روپے اور 2016-17ء میں چھ ارب روپے کم دیئے، کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) نے بھی ہمارے 80 کروڑ روپے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جبکہ الائیڈ بینک نے کے ایم سی کے پونے دو ارب روپے روک رکھے ہیں، اگر یہ رقم جو کراچی کا حق ہے اسے مل جاتی تو یہ شہر لاہور سے بھی آگے ہوتا، کراچی میں چھ اضلاع بنا کر زیادتی کی گئی، یہ کراچی ہی ہے جس کی وجہ سے اس ملک کا بجٹ بنتا ہے، اقتدار کے منصب پر فائض رہنے والے اس شہر سے 25 ہزار کھرب لے چکے ہیں مگر اس کراچی کے عوام کو ہی پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کیا جاتا، یہاں بجلی نہیںہے، سیوریج کے مسائل کوئی حل نہیں کر رہا، کچرا نہیں اٹھایا جاتا، اس شہر کے اسپتال صحیح طور پر نہیں چل پا رہے، آخر حکمران کب تک اس شہر کے ساتھ مذاق کریں گے ،کراچی کے عوام کو کب تک بیوقوف بنایا جائے گا، اس شہر کے لوگ اب بیوقوف نہیں بنیں گے میں اب کے پی ٹی کے خلاف بھی کورٹ میں جائوں گا، ایس ایل جی او 2013-کی آڑ میں کراچی کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، جو ترقیاتی کام کے ایم سی کے کرنے کے ہیں ان میں بھی سندھ حکومت خود ہاتھ ڈال رہی ہے، کے ایم سی کا ریونیو دیگر اداروں کو جا رہا ہے، تنخواہوں کی مد میں صوبائی حکومت کی جانب سے پہلے سے جاری تنخواہ ہی دی جا رہی ہے جبکہ ہر سال تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے، 2017-18 کی پہلی ریلیز کے ایم سی کو چھ ماہ دیر سے دی گئی تاکہ ہم مشکلات کا شکار ہی رہیں اور میئر پرفارم نہ کرسکے، یہ کراچی کے ساتھ مسلسل زیادتی ہے، کراچی کے عوام بیوقوف نہیں ہیں، میں شہریوں سے کہوں گا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کریں، تمام تر نامساعد حالات کے باوجود منتخب بلدیاتی نمائندوں نے شہری مسائل کے حل کے کاموں اور محکموں میں مستقل بہتری ہی لانے کی کوشش کی ، یہی وجہ ہے کہ 2014-15 ء میں کے ایم سی کی ریکوری 19 فیصد تھی جبکہ ہماری کوششوں کے باعث 2016-17 میں یہ ریکوری 26 فیصد تک پہنچ گئی اور اب 2017-18 میں ہم تقریباً ساڑھے 27 فیصد تک ریکوری کے حصول میں کامیاب ہوئے ہیںاور مزید بہتری کی کوشش کر رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کی سہ پہر کے ایم سی بلڈنگ میں منعقدہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر میونسپل کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن، چیئرمین اراضیات کمیٹی سید ارشد حسن، چیئرمین قانونی امور کمیٹی عارف خان ایڈوکیٹ ، کے ایم سی کمیٹیوں کے منتخب چیئرمین، کے ایم سی کے مختلف محکموں کے سربراہان اور ڈائریکٹر ٹیکنیکل ایس ایم شکیب بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

میئر کراچی وسیم اختر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح منتخب بلدیاتی نمائندے پرفارم کر رہے ہیں یقینا اس کا رزلٹ خاطر خواہ نہیں آیا کیونکہ یہ پھر سے بلدیاتی نظام کے خلاف سازش ہے کہ یہ لوکل گورنمنٹ مضبوط نہ ہو، 18 ویں ترمیم کے بعد جو صوبوں کو اختیارات دیئے گئے ہیں ان پر صوبوں میں عملدرآمد نہیں کیا جار ہا، انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کا شکرگزار ہوں کہ میں نے کراچی کو اس کے حقوق دلانے کے لئے جو جدوجہد شروع کی ہے اس پر کورٹ نے آرٹیکل 140-A کے حوالے سے میری درخواست پر سماعت جاری رکھی ہے انہوں نے کہا کہ میں لوکل گورنمنٹ کو مضبوط کرنے کی یہ جنگ صرف کراچی کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کے بلدیاتی اداروں کے لئے لڑ رہا ہوں، ابھی ہم دیگر ترقی یافتہ ملکوں سے بہت پیچھے ہیں ، ہم نے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی پر بھی توجہ نہیں دی، انہوں نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک لوکل گورنمنٹ کو مضبوط نہیں کیا جاتا جمہوریت بھی اس وقت تک مضبوط نہیں ہوگی، انہوں نے کہا کہ اب الیکشن کا وقت قریب ہے لہٰذا جو حکمران بھی اس الیکشن کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں انہیں چاہئے کہ جمہوریت کی بنیادی نرسری لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط کریں تاکہ وہ خود بھی مضبوط ہوسکیں، انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کے پاس تقریباً 35 محکمے ہیں جو آج بھی زبوں حالی کا شکار ہیں، کے ایم سی کے پاس تقریباً 13 ہزار ملازمین ہیں انہوں نے کہا کہ کون کہتا ہے کہ کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین موجود ہیں، جو ملازمین کی تعداد پہلے تھی وہی تعداد آج بھی ہے، انہوں نے کہا کہ ملازمین کی تنخواہ ہرسال بڑھتی ہے اور بڑھنا بھی چاہئے کہ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سندھ حکومت تنخواہوں کی مد میں جو رقم پہلے جاری کرتی تھی وہی رقم آج بھی جاری کر رہی ہے اور بڑھی ہوئی تنخواہ کی مد میں جو اضافی رقم خرچ ہو رہی ہے اس سے کے ایم سی کو ایک ارب 10 کروڑ کا خسارہ ہے اور یہ خسارہ صرف اور صرف تنخواہ کی مد میں ہے، انہوں نے کہا کہ اگر کے ایم سی پرفارم کرے گی اور اچھے نتائج دے گی تو اس سے نیک نامی سندھ حکومت کی ہی ہوگی، انہوں نے کہا کہ اداروں کو مس گائیڈ نہ کیا جائے ، کراچی کی آبادی جو تقریباًتین کروڑ ہے اگر مردم شماری میں اس آبادی کو محض ڈیڑھ کروڑ بتایا جائے گا تو خود بھی سوچیں پالیسیاں کیسے درست بنیں گی اور مسائل کیسے حل ہوں گے، انہوں نے کہا کہ 2017-18 کے بجٹ میں 143اسکیمیں ہم نے دیں اور یہ وہ اسکیمیں تھی جس میں چھ کی چھ ضلع بلدیات سے مشاورت کرکے اسکیمیں بنائی گئی تھیں مگر صوبائی حکومت نے ہماری بتائی ہوئی اسکیموں میں سے ایک بھی اسکیم اپنے بجٹ میں نہیں رکھی، انہوں نے کہا کہ گجر نالہ ، محمود آباد نالہ ، کورٹ کے آرڈر کے باوجود صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے ورلڈ بینک کی رپورٹ بھی پڑھنے کے لائق ہے، انہوں نے کہا کہ یوسیز کو پہلی دفعہ ہم نے 50 کروڑ روپے سے زائد کی رقم دی ہے مگر ان یوسیز میں سیوریج سے متعلق کام جو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے کرنے کے ہیں انہیں بھی ہم حل کر ر ہے ہیں اور یوسیز کو دی جانے والی رقم میں سے تقریباً 80 فیصد سیوریج کے مسائل درست کرنے پر حل ہو رہے ہیں جبکہ یہ کے ایم سی کا کام نہیں ہے کیونکہ واٹر بورڈ سندھ حکومت کی نگرانی میں ہے، انہوں نے کہا کہ 3ارب 300ملین روپے حکومت سندھ پنشن کی مد میں دیتی ہے جو مکمل طور پر پنشن پر خرچ کردیئے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ نالوں کی صفائی کے لئے 43 کروڑ روپے ملے مگر نالوں کی صفائی کا یہ حل نہیں ہے کہ ہر سال 50 کروڑ روپے دے دیئے جائیں، یہ عارضی حل ہے جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا مستقل حل ہو جو اسٹروم واٹر ڈرینج سسٹم ہی ہے ، انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے اسٹروم واٹر ڈرینج بنائے اور ہم نے ان پر مارکیٹیں بنا دیں، جب تک شہر میں گاربیج کا نظام اور تجاوزات کے مسائل حل نہیں ہوتے مسائل موجود رہیں گے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو غلطیاں ہم سے اور دوسروں سے ہوئی ہیں انہیں اب ٹھیک کرنا ہوگا، ترقیاتی کاموں اور ٹھیکوں کے لین دین میں کئی حصہ تو رشوت کی نظر ہوجاتا ہے اگر شہر پر مکمل بجٹ کی رقم لگ جائے تو اس شہر کی حالت بھی سدھر جائے گی،میئر کراچی نے اکتوبر 2016 تا اپریل2018 بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2016-17 میں مختلف شعبوں میں ڈسٹرکٹ اے ڈی پی کی مد میں 473 ترقیاتی اسکیموں پر عملدرآمد ہوا جن میں سے 286 مکمل ہوئیں اور بقیہ 187 اسکیمیں 2017-18 میں جاری رہی، ان اسکیموں پر کل اخراجات کا تخمینہ 10802.110ملین روپے تھا، 2016-17 کے دوران تنخواہوں کی مد میں 6890ملین روپے اور پنشن کی مد میں 3310 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ واجبات 949.614 ملین روپے تھے، موجودہ مالی سال کے دوران اپریل 2018 تک کی مالیاتی پوزیشن کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2017-18 میں 10359.224 ملین روپے مجموعی لاگت کی کل 459 ترقیاتی اسکیمیں بنائی گئیں جن میں میئرکراچی کی شروع کردہ 272 اسکیمیں بھی شامل تھیں اور ان پر 2017-18 کے دوران کل اخراجات کا تخمینہ 2516.681 ملین روپے ہے ، ان میں سے 154 اسکیمیں مکمل ہوگئی ہیں جبکہ 169 پر کام جاری ہے اور 123 اسکیمیں شروع ہونی ہے، انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2017-18 کے دوران تنخواہوں کی مد میں 5390 ملین روپے جبکہ پنشن کی مد میں 2085 ملین روپے اخراجات ہوئے جبکہ یوسی ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے رکھے گئے 2516 ملین روپے میں سے 507 ملین روپے خرچ کئے جاچکے ہیں، ریونیو ریکوری کا موازنہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2017-18 میں اپریل تک کل ریونیو ریکوری 1,015.722 ملین روپے رہی جبکہ 2016-17 میں 1,196.847 ملین روپے اور 2015-16 میں 1,271.214 ملین روپے ریونیو حاصل ہواتھا،میئر کراچی نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ مالی سالوں کے دوران OZT میں کے ایم سی کا اصل شیئر 63,812 ملین روپے تھا جبکہ صرف 29,004 ملین روپے وصول ہوئے اور 34,807 ملین روپے شارٹ فال کا سامنا رہا، انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے ایس ایل جی اے کے تحت اور مختلف احکامات / نوٹیفکیشن کے ذریعے کے ایم سی میں ریونیو کی وصولی کے مختلف شعبے واپس لے لئے جن کے ذریعے سالانہ 1,810 ملین روپے ریونیو وصول کیا جاتا تھا جن میں ماسٹر پلان ،BTS ٹاورز، ویٹرنری، بچت بازار، چارجڈ پارکنگ، لوکل ٹیکسز اور پارکنگ پلازہ صدر شامل ہیں، میئر کراچی نے اس موقع پر اکتوبر 2016 تا اپریل2018 کے درمیان مختلف ملکی اور غیر ملکی کمپنیز اور دیگر اداروں کے ساتھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے کئے جانے والے 9 معاہدوں (MoU's)کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جن کا مقصد شہر کی بہتری اور ترقی کے لئے اقدامات کرنا ہے، اس موقع پر میونسپل کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے بتایا کہ واٹر کمیشن نے کے ایم سی کے 30 بڑے نالوں سمیت شہر کو خوبصورت اور صاف ستھرا کرنے کے حوالے سے ایک پلان بنایا ہے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے 11 مئی سے کراچی میں صفائی مہم شروع کی جا رہی ہے جس میں کراچی کے چھ اضلاع کی مختلف اہم ، بڑی شاہراہوں اور اطراف کے علاقوں کو صاف کرنے کے لئے شہری سہولتوں کی فراہمی کے ذمہ دار تمام ادارے مشترکہ طور پر کام کریں گے، مہم کے دوران شہر کی وہ شاہراہیں، سڑکیں اور علاقے جو اس شہر کا چہرہ ہیں ان پر موجود ملبے، غیر استعمال شدہ گاڑیوں کے ڈھانچے، پرانے فرنیچر، مختلف اقسام کے تجاوزات، جھاڑیاں اور کوڑا کرکٹ کو اٹھایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ صفائی کی یہ مہم طویل دورانیے پر مشتمل ہوگی جس میں یوسی وائس کام کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ضلع کی سطح پر ٹاسک فورس بنا دی گئی ہیں، انشاء اللہ 11 مئی سے شہر میں صفائی مہم شروع کر رہے ہیں۔