بیروزگاری کے خاتمے کیلئے نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی،

سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے،بجٹ میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے زیادہ اقدامات نظر نہیں آتے،کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ نہ ہونے تک ملک میں بے چینی ختم نہیں ہو سکتی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے، ٹیکسوں کی شرح کم کرنے ،ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے ،خواتین کو ترقی کے دھارے میں لانے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے،روپے کی قدر کو مستحکم بنائے بغیر معیشت کو ترقی نہیں دی جا سکتی، اپنی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرنے ہوں گے،پسماندہ علاقوں کو بھی ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جانا چاہئے،اراکین سینیٹ کا بجٹ 2018-19ء پر بحث میں اظہار خیال

بدھ 9 مئی 2018 20:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مئی2018ء) اراکین سینیٹ نے کہاہے کہ بیروزگاری کے خاتمے کیلئے نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی، سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے،بجٹ میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے زیادہ اقدامات نظر نہیں آتے،کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ نہ ہونے تک ملک میں بے چینی ختم نہیں ہو سکتی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے، ٹیکسوں کی شرح کم کرنے ،ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے ،خواتین کو ترقی کے دھارے میں لانے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے،روپے کی قدر کو مستحکم بنائے بغیر معیشت کو ترقی نہیں دی جا سکتی،اپنی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرنے ہوں گے،پسماندہ علاقوں کو بھی ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جانا چاہئے۔

بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں مالی سال 2018-19ء کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر رخسانہ زبیری نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے زیادہ اقدامات نظر نہیں آتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بجٹ عوام کی توقعات کے مطابق ہونا چاہئے تھا۔ جب تک کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ نہیں ہوگا، ملک میں بے چینی ختم نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی اور زرعی شعبوں کو مزید سہولیات فراہم کر کے معاشی ترقی کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اس وقت ملک کو جو حالات درپیش ہیں ان میں مثالی بجٹ پیش کرنا بہت مشکل تھا۔ بجٹ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عام آدمی کو اس سے کتنا فائدہ ہوگا اور معیشت کتنی ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور کم آمدنی والے طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

درآمدات بڑھنے اور برآمدات میں کمی سے تجارت میں بھی عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر کو مستحکم بنائے بغیر معیشت کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔ صنعتی شعبہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن ٹیکس بڑھنے کی وجہ سے اس میں ترقی کی رفتار ہمیں نظر نہیں آ رہی۔ ٹیکسوں کی شرح کم کرنے اور ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔

بے روزگاری کے خاتمے کے لئے نجی شعبہ کو سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ فنی و پیشہ ورانہ تعلیم وقت کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور ہمیں خدشہ ہے کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے مزید قرضے لینا پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ غربت کے خاتمے کیلئے جب تک اقدامات نہیں ہوں گے معاشرے میں مساوی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ خواتین کو بھی ترقی کے دھارے میں لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ سینیٹر مرزا خان آفریدی نے کہا کہ فاٹا کی ترقی کے لئے مزید فنڈز دینے کی ضرورت ہے۔ فاٹا اس وقت مسائل کا شکار ہے۔

فاٹا کے عوام کو بھی ترقی کے عمل میں شریک کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ صنعتی شعبہ پاکستان کی معاشی ترقی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس شعبہ کو مزید سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر گل بشریٰ نے کہا کہ معاشی ترقی کے لئے خواتین کو بھی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کسی بھی حکومت کے معاشی اقدامات کی نظیر ہوتا ہے۔

معیشت جب تک ترقی نہیں کرے گی ہم عوام کو سہولیات نہیں دے سکتے۔ سینیٹر گیان چند نے کہا کہ بجٹ میں عوام کو زیادہ سہولیات دی جا سکتی تھیں۔ ہمیں اپنی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔ سینیٹر کرشنا کماری نے کہا کہ پسماندہ اور غریب افراد کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے علاقے جہاں پر سہولیات کی کمی ہے انہیں بھی ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جانا چاہئے۔

سینیٹر شاہین خالد بٹ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مشکل حالات میں بہت بہتر بجٹ پیش کیا ہے۔ معیشت کے تمام شعبے اس وقت مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو مہنگائی کے چنگل سے نکالنے اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت نے جس طریقے سے کام کیا ہے اسے سراہا جانا چاہئے۔