سینیٹ نے فنانس بل 2018ء کیلئے 156 سفارشات کی منظوری دیدی ،قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئیں

12 سے 24 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کیلئے ٹیکس کی شرح کم کر کے 10 فیصد ،24 سے 48 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کیلئے 15 فیصد کی جائے، کم ترقی یافتہ علاقوں میں صنعتی شعبہ کی ترقی کیلئے ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی جائیں،زرعی مشینری کیلئے دی جانیوالی رعایات جاری رکھی جائیں، سولر ٹیوب ویلوں کی تنصیب کیلئے بلاسود قرضہ فراہم کیا جائے، تمباکو کی فروخت پر 10 روپے فی کلو گرام کے حساب سے نافذ مجوزہ ہیلتھ لیوی واپس لی جائے، غریب کسانوں کے ذمہ واجب الادا 2 ارب 75 کروڑ روپے کے زرعی قرضے ختم کرنے کیلئے وافر فنڈز مختص کئے جائیں، فاٹا کیلئے پی ایس ڈی پی کے تحت رقم 24 ارب 50 کروڑ روپے سے بڑھا کر 40 ارب روپے کی جائے، سفارشات

بدھ 9 مئی 2018 20:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مئی2018ء) سینیٹ نے فنانس بل 2018ء کیلئے 156 سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بھجوا دی ہیں، سفارشات میں کہا گیا ہے کہ 12 سے 24 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کیلئے ٹیکس کی شرح کم کر کے 10 فیصد ،24 سے 48 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کیلئے 15 فیصد کی جائے، کم ترقی یافتہ علاقوں میں صنعتی شعبہ کی ترقی کیلئے ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی جائیں،زرعی مشینری کیلئے دی جانیوالی رعایات جاری رکھی جائیں، سولر ٹیوب ویلوں کی تنصیب کیلئے بلاسود قرضہ فراہم کیا جائے، تمباکو کی فروخت پر 10 روپے فی کلو گرام کے حساب سے نافذ مجوزہ ہیلتھ لیوی واپس لی جائے، غریب کسانوں کے ذمہ واجب الادا 2 ارب 75 کروڑ روپے کے زرعی قرضے ختم کرنے کیلئے وافر فنڈز مختص کئے جائیں، فاٹا کیلئے پی ایس ڈی پی کے تحت رقم 24 ارب 50 کروڑ روپے سے بڑھا کر 40 ارب روپے کی جائے۔

(جاری ہے)

بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو و اقتصادی امور کے چیئرمین سینیٹر فاروق حامد نائیک نے قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر مبنی رپورٹ ایوان میں پیش کی جس کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی ۔سینیٹ نے سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سگریٹس پر عائد ٹیکس سے وصول ہونے والی رقم صحت کے شعبہ پر خرچ کی جائے۔ حکومتی ریونیو بڑھانے کے لئے نان فائلرز کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لئے طریقہ کار وضع کیا جائے۔

صنعتی خام مال پر نافذ مجوزہ ایک فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی واپس لی جائے۔ صنعتی شعبہ کی ترقی اور صنعت کاروں کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے حطار انڈسٹریل اسٹیٹ خیبر پختونخوا میں نیشنل بینک کی شاخ قائم کی جائے۔ سویا بین آئل پر مجوزہ درآمدی ڈیوٹی ختم کی جائے۔ تمباکو کی فروخت پر 10 روپے فی کلو گرام کے حساب سے نافذ مجوزہ ہیلتھ لیوی واپس لی جائے۔

بلوچستان میں ریفائنری پلانٹس کے قیام کے لئے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر سیلز ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلوچستان کے کرومائیٹ اور کوئلہ والے علاقوں میں استعمال ہونے والے ڈمپرز اور ٹرکوں کو بھی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ ضلع ژوب، قمر دین کاریز میں کسٹم گیٹ وے کے لئے کسٹم ہائوس قائم کیا جائے۔ تمام انٹرنیز کے لئے کم از کم سکالر شپ 20 ہزار روپے مقرر کیا جائے۔

غریب کسانوں کے ذمہ واجب الادا 2 ارب 75 کروڑ روپے کے زرعی قرضے ختم کرنے کے لئے وافر فنڈز مختص کئے جائیں۔ سی کے ڈی/ایس کے ڈی موبائل کٹس پر مجوزہ ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کی جانی چاہئے۔ 2018-19ء کے بجٹ میں اعلان کردہ سینئر پوسٹ الائونس کا دائرہ گریڈ 19 سے 22 تک بڑھایا جائے۔ ڈومیسٹک ایئر لائن ٹکٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 3600 روپے سے کم کر کے 1800 روپے کی جائے۔

ہائی برڈ اور الیکٹرک کاروں پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو یکساں کیا جائے۔ صوبوں کے لئے پی ایس ڈی پی میں رکھی جانے والی رقوم کی تفصیلات بجٹ کو حتمی شکل دیئے جانے سے کم از کم دو ماہ پہلے ایوان بالا میں پیش کیا جائے تاکہ ایوان بالا کے ارکان کو پی ایس ڈی پی کے لئے مختص رقوم کے معاملے میں بھرپور شرکت کا موقع مل سکے۔ سی پیک کے تحت ژوب ۔ کوئٹہ اور قلعہ سیف الله میں پیشہ ورانہ تربیت کے انسٹیٹیوٹ قائم کئے جائیں۔

فاٹا کے لئے پی ایس ڈی پی کے تحت رقم 24 ارب 50 کروڑ روپے سے بڑھا کر 40 ارب روپے کی جائے۔ بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے کم از کم 20 ارب روپے مختص کئے جانے چاہئیں۔ ضلع کوئٹہ میں ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے لئے وفاقی بجٹ میں فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں۔ گوادر میں سی پیک انسٹیٹیوٹ کی فوری منظوری دی جائے اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں۔

تحصیل پتن ضلع کوہستان میں سٹیڈیم قائم کیا جانا چاہئے۔ گوادر میں انڈسٹریل اسٹیٹ پر کام ترجیحی طور پر مکمل کیا جانا چاہئے۔ بلوچستان میں معدنی سروے کے لئے فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں۔ زیارت سے سنجاوی، دکی اور لورہ لائی تک گیس پائپ لائن بچھانے کے لئے فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں۔ پشین سے چمن کے لئے بھی گیس پائپ لائن بچھانے کے لئے فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں۔

ضلع ہری پور میں سوئی گیس کے بنیادی ڈھانچے اور بجلی کی لائنوں کی بہتری کے لئے 10 کروڑ روپے مختص کئے جائیں۔ بلوچستان میں بجلی کی ترسیلی لائنوں کی بہتری کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے جائیں۔ ضلع جعفر آباد کے دیہات کو بجلی فراہم کی جائے۔ دریائے کرم پر 12 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ ضلع کوہستان میں 132 کے وی کا گرڈ اسٹیشن قائم کیا جائے۔

حطار انڈسٹریل اسٹیٹ میں بجلی کے نظام کو بہتر بنایا جائے جو ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 70 ارب روپے ادا کرتا ہے۔ سول ہسپتال نوشکی کے لئے شمسی توانائی کی فراہمی کے منصوبے کے لئے 40 لاکھ روپے مختص کئے جائیں۔ قلات اور مستونگ کے اضلاع کو بجلی کی فراہمی کے لئے 20 کروڑ روپے دیئے جائیں۔ ضلع خضدار میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔

بلوچستان میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لئے کم از کم ایک ارب روپے مختص کئے جائیں۔ ہری پور میں 40 زرعی ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم سے متاثرہ لوگوں کو زمینوں کی ادائیگی کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ ٹیکسلا میوزیم کے سامنے سڑک کو وسعت دینے کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ داسو سے رائے کوٹ تک سڑک کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔

بابو سر ٹنل کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ این 85 اور ایم 8 پر ٹول پلازے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کئے جائیں۔ حب میں میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ موسمیاتی تبدیلی ڈویژن کیلئے مختص فنڈز بڑھا کر 2 ارب روپے کئے جائیں۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس (آج) جمعرات کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔