اسلام آباد ہائیکورٹ نے رمضان المبارک میں لاٹری، جوا اور سرکس جیسے پروگرامز پر پابندی عائد کردی،

وزارت اطلاعات و نشریات، داخلہ اور پیمرا کو عدالتی ہدایات پر عمل کرانے کا حکم

بدھ 9 مئی 2018 20:35

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رمضان المبارک میں لاٹری، جوا اور سرکس جیسے پروگرامز ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 مئی2018ء) اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رمضان المبارک میں لاٹری، جوا اور سرکس جیسے پروگرامز پر پابندی عائد کرتے ہوئے وزارت اطلاعات و نشریات، داخلہ اور پیمرا کو عدالتی ہدایات پر عمل کرانے کا حکم دے دیا۔فاضل جج کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں پیمرا کی گائڈلائن کے برخلاف کوئی پروگرام نشر نہیں ہوگا اور تمام پروگراموں کی سخت نگرانی کی جائے گی ، خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی ہوگی۔

بدھ کو جاریحکم میں کہا گیا ہے کہ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کے میزبان اور مہمان کی طرف سے رمضان المبارک کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ رمضان المبارک میں تمام چینلز 5 وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اذان مقامی وقت کے مطابق نشر کریں گے، اس کے علاوہ مغرب کی اذان ( یعنی افطار کے وقت) سے 5 منٹ قبل تک کوئی اشتہار نہیں چلایا جائے گا بلکہ درود شریف اور پاکستان کے استحکام، سلامتی اور امن کے لیے دعا کی جائے گی۔

(جاری ہے)

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ کوئی لاٹری اور جوا پر مشتمل پروگرام، یہاں تک کے حج اور عمرے کے ٹکٹس کے حوالے سے بھی کسی چیز کو براہ راست یا ریکارڈیڈ نشر نہیں کیا جائے گا، اس کے علاوہ نیلام گھر اور سرکس جیسے پروگرامز لازمی رکنے چاہئیں۔عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ وزارت اطلاعات اور داخلہ کے سیکرٹریز اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی رمضان کے پہلے عشرے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ غیر ملکی مواد، خاص طور پر بھارتی ڈارمے، اشتہارات اور فلموں پر پابندی ہوگی جبکہ صرف 10 فیصد غیر ملکی مواد ضابطہ اخلاق کے تحت نشر کرنے کی اجازت ہوگی اور اس میں ریاست اور اسلام مخالف چیزوں کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ رمضان المبارک کے دوران سحر اور افطار ٹرانسمیشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دیں گے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ کرکٹ میچ پر تجزیہ کرانے کے لیے بیرون ملک سے ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں لیکن اسلامی موضوعات پر بات کرنے کے لیے کرکٹرز اور اداکاروں کو بیٹھا دیا جاتا ہے۔دوران سماعت عدالت نے ہدایت دی کہ مارننگ شوز اور رمضان ٹرانسمیشن میں اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالر سے کم کوئی بات نہیں کرے گا۔

کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے طلب کرنے پر پیمرا کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے کل 117 چینلز میں 3 چینلز اذان نشر کررہے ہیں۔سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا تھا کہ پاکستان میں بھارتی چینلز کون چلا رہا ہی اس حوالے سے رپورٹ پیش کی جائے۔اس پر ڈی جی آپریشنز پیمرا نے بتایا کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کے خلاف بات سنسر ہوتی ہے تو دین کے خلاف کیوں نہیں ہوسکتی۔

سماعت کے دوران وکیل پی بی اے نے کہا کہ پی بی اے چینلز، پیمرا، آئین اور ضابطہ اخلاق کے تحت چل رہے ہیں، عدالت کوئی عام حکم جاری نہ کرے بلکہ پیمرا کو ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے ہدایات جاری کرے۔اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیق نے ریمارکس دیئے کہ میں کوئی ایسا حکم نہیں کرتا جس پر عملدرآمد نہ کراسکوں، بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔