وزیراعظم کا نوازشریف کیخلاف منی لانڈرنگ کے الزام کے نیب نوٹس پر چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ میں طلب کرکے ان سے تفتیش کا مطالبہ

پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو چیئرمین نیب کو طلب کر کے ان سے ثبوت مانگے اور رپورٹ ایوان میں پیش کرے تاکہ عوام حقائق جان سکے،الیکشن سے قبل اسطرح کے الزامات پری پول دھاندلی ہے،نیب کا ادارہ سیاسی جماعتیں توڑنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے ایک آمر نے بنایا تھا، شرمندگی اس بات کی ہے کہ چیئرمین نیب کا نام میں نے اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اتفاق رائے سے بھیجا تھا،اسطرح کی کارروائیاںدنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں،سابق وزیراعظم کی نیب عدالت میں ہفتے میں6،6 پیشیاں اور بعض اوقات روزانہ3،3 پیشیاں ہو رہی ہیں، نیب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی،احتساب عدالت میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، احتساب قانون میں ترمیم کرنے پر جو اتفاق ہوا تھا اسے بے شک ماضی میں نہ لے کر جائیں بلکہ مستقبل کیلئے فیصلہ کرلیں اورجن ترامیم پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہو چکا ان کو ایوان میں پیش کیاجائے اور انکو منظور کیا جائے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال

بدھ 9 مئی 2018 22:33

وزیراعظم کا نوازشریف کیخلاف منی لانڈرنگ کے الزام کے نیب نوٹس پر چیئرمین ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 مئی2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کے نیب نوٹس پر چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ میں طلب کرکے ان سے تفتیش کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو چیئرمین نیب کو طلب کر کے ان سے ثبوت مانگے اور رپورٹ ایوان میں پی کرے تاکہ عوام حقائق جان سکے،الیکشن سے قبل اسطرح کے الزامات پری پول دھاندلی ہے،نیب کا ادارہ سیاسی جماعتیں توڑنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے ایک آمر نے بنایا تھا، شرمندگی اس بات کی ہے کہ چیئرمین نیب کا نام میں نے اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اتفاق رائے سے بھیجا تھا،اسطرح کی کارروائیاںدنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں،سابق وزیراعظم کی نیب عدالت میں ہفتے میں6،6 پیشیاں اور بعض اوقات روزانہ3،3 پیشیاں ہو رہی ہیں، نیب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی،احتساب عدالت میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، احتساب قانون میں ترمیم کرنے پر جو اتفاق ہوا تھا اسے بے شک ماضی میں نہ لے کر جائیں بلکہ مستقبل کے لیے فیصلہ کرلیں اورجن ترامیم پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہو چکا ان کو ایوان میں پیش کیاجائے اور انکو منظور کیا جائے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کر رہے تھے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں نے اس سے قبل اس ایوان کے اندر اور باہر کہا ہے کہ نیب کی وجہ سے ملک کے اندر جو حالات پیدا ہو رہے ہیں وہ اچھے نہیں ہیں۔ نیب کا ادارہ سیاسی جماعتیں توڑنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے ایک آمر نے بنایا تھا پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اقتدار ملا اور ہم بھی حکومت میں ہیں تاہم بدقسمتی ہے کہ اتفاق رائے ہونے کے باوجود ہم نیب کا ایسا ادارہ نہ بنا سکے جو سیاستدانوں پر اثرانداز ہونے اور ان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے ملک میں کرپشن کے خلاف اپنا کردار ادا کر سکے اور انصاف کے تقاضے پورے کر سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک ترمیم میں تین چار سال لگے اور اس پر اتفاق رائے بھی تھا تاہم اس کو ہم ہائوس میں پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی اس کی منظوری ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کے فیصلے تو آنے والی حکومت نے کرنے ہیں۔ سابق وزیراعظم پر اس وقت نیب عدالتوں میں کیس چل رہا ہے وہاں سے انصاف کی توقع تو نظر نہیں آرہی۔ جس طرح سے وہ ٹرائل ہو رہا ہے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے اور انصاف ہونا بھی چاہیے۔

سابق وزیراعظم کی ہفتے میں چھ چھ پیشیاں اور بعض اوقات روزانہ تین تین پیشیاں ہو رہی ہیں۔ نیب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم شکایت نہیں کرتے تاہم یہ ریکارڈ کی چیزیں ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 8مئی کو نیب کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں چیئرمین نیب نے سابق وزیراعظم اور دیگر کے خلاف چار ارب 90 کروڑ ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھجوانے کی میڈیا رپورٹ پر تحقیقات کا حکم دیا،اس طرح کے کام ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں جن کاسر پیر نہیں ہوتا تھا ان کی بنیاد پر انتقامی کارروائیاں ہوتی تھیں یہ ہمارے لئے تشویش اور دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث ہے۔

دنیا کیا سوچے گی کہ نیب کا چیئرمین کہہ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم نے چار ارب 90 کروڑ ڈالر بھارت بھجوائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا پورا بجٹ 35 ارب ڈالر ہے۔جب کسی ادارے کا سربراہ اس قسم کی بات کرے یا پریس ریلیز جاری کرے تو سوچیں اس ادارے میں اور کیا کام ہو رہے ہوں گے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے ملک نہیں چل سکتا۔

اس قسم کے ادارے اور چیئرمین ہوں گے تو ادارہ کیسے انصاف کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ شرمندگی اس بات کی ہے کہ ان کا نام یہاں سے ہی میں نے اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اتفاق رائے سے بھیجا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہمارا حق اور ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی باتیں ہوں تو عوام اور ہائوس کے سامنے ثبوت رکھے جائیں۔ یہ بہت اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے اور ایک دشمن ملک کو پیسے بھیجنے کا الزام ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ ہائوس چیئرمین نیب کو طلب کرکے ان سے پوچھے کہ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا اس کے آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں اس کا ریکارڈ پیش کریں اس طرح تو کسی پر بھی الزام لگایا جاسکتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ اقدام قبل از انتخابات دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے۔ دو ماہ بعد عام انتخابات ہونے ہیں اور ملک کے سابق وزیراعظم پر یہ الزام لگایا گیا ہے جوکہ شرمندگی اور تشویش کا باعث ہے۔

وزیراعظم نے تجویز دی کہ رول 244 بی کے تحت خصوصی کمیٹی بنائی جائے جو اس معاملے کی تحقیقات کرے۔ کمیٹی نیب کے چیئرمین کو طلب کرے اور ان سے اس معاملے کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے تاکہ پاکستان کے عوام کے سامنے حقائق آسکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب بھی اپوزیشن کو یہ پیشکش کرتے ہیں کہ نیب قانون کی جن ترامیم پر اتفاق رائے ہو چکا ہے ان پر اس ایوان میں بحث کی جائے اور ایوان میں پیش کی جائیں ہم اس پر مباحثہ یا اجلاس کے لئے تیار ہیں۔