دنیا تیزی ترقی کررہی ہے، اس رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا وقت کی آواز ہے، رازہنہ عالم خان

اسکے لئے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے،چیرپرسن ین سی ایچ ڈی کا خصوصی انٹر ویو

بدھ 9 مئی 2018 23:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 مئی2018ء) نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیویلپمنٹ (این سی ایچ ڈی) کی چیئر پرسن رازہنہ عالم خان نے کہا ہے کہ دنیا تیزی ترقی کررہی ہے۔ اس رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا وقت کی آواز ہے اسکے لئے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار آن لائن کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کیلئے تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ پی ایچ ڈی بھی اسی شعبہ میں کی جائے جس شعبہ کے ہمیںمسائل درپیش ہیں تاکہ مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے اور ملک آگے بڑھے ۔ انہوں نے کہا کہ ویسے تو نیشنل کمشن فار ہیومن ڈیویلپمنٹ میں بہت وسعت ہے لیکن ہماری زیادہ تر توجہ تعلیم اور ہنر پر ہے ہم ان بچون کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں جو غربت یا کسی اور وجہ سے سکول نہیں جارہے ہم انکی تعلیم کیلئے کام کررہے ہیں اور ہمیں چھ ہزار سکولوں کی اجازت ملی ہے۔

(جاری ہے)

ہم صوبوں کی معاونت سے ان سکولوں کو چلارہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تربیت کے بغیر تعلیم ایسی ہے جیسے روح کے بغیر جسم ۔ اس لئے تربیت کو بھی اہمیت دی جارہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ میں نے جب سے این سی ایچ ڈی کی ذمہ داری سنبھالی ہے اسکے رولز اینڈ ریگولیشنز کو حتمی شکل دے کر منظوری کیلئے بھیج دیا ہے۔ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کرنددے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ مرکز کے پاس ہونا چاہیے پھر اسمیں صوبوں کی ضرورت کے مطابق اضافہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہمارے تعلیم یافتہ بچوں پر ٹیگ لگ جائے کہ اس نے فلاں صوبہ سے تعلیم مکمل کی ہے اور اس نے فلاں صوبہ سے ۔ اس سے خوا مخواہ ایک معیار کا ٹیگ لگ جاتا ہے۔ اب ہمارے وزیر محمد بلیغ الرحمان نے ایک معیار ترتیب دیا ہے صوبوں کے تعلیمی وزراء پر مشتمل ۔ انہوں ایک کونسل بنائی ہے ۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن وفاقی وزیر صاحب نے برادشت ، تحمل اور محنت کے ساتھ ایک سٹینڈرڈ مقرر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ خواندگی کا شعبہ بھی مرکز کے پاس ہونا چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ بہت سارے ایسے ادارے ہیں جو ایک ہی مقصد کیلئے کام کررہے ہیں لیکن یہ ادارے مل کر کام کرنے کو تیار نہیں۔ شاید ان اداروںکی کوشش ہے کہ انکی انفرادیت قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سارے ملکوں کی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیا اور مطالعہ کیا ہے جس سے میں نے سیکھا ہے کہ قومی یکجہتی کے لئے تعلیم وفاق کے پاس ہی ہونا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کام کرنے کی راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں جس سے کام تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور ٹارگٹ حاصل کرنے میںمشکلات پیش اٹی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ویژن 2025تک ہمارا لٹریسی ریٹ 90فیصد جبکہ انرولمنٹ سو فیصد ہو۔ میری زندگی کی سب سے بڑی دعا یہی ہے کہ آخری سانس بھی لوں تو اس وقت بھی تعلیم کیلئے کام کررہی ہوں۔ کیونکہ ہمارے میں میں تعلیم کے حوالے سے اس طرح آگاہی نہیں جسکی ضرورت ہے ۔

میں اس بات کیلئے بھی کوشاں ہوں کہ لیکن تعلیم کیلئے پوری قوم کو جدو جہد کرنا ہے۔ جوصاحب حیثیت لوگ ہیں وہ کم از کم ایک بچے کی تعلیم کی ذمہ داری لے لیں اور جو صاحب حیثیت نہیں لیکن پڑھے لکھے ہیں وہ خود بچے کو پڑھادیں۔ انہوںنے بتایا کہ ہم ایک نیشنل پلان آف ایکشن بھی بنارہے ہیںجسمیں یہ طریقہ کار ترتیب دیا جائے گا کہ ویژن 2025کے ہدف کو کس طرح حاصل کیا جاسکے۔

متعلقہ عنوان :