لاہور،حکومت اپنے آخری دنوں میں بھی ون ویلنگ کر رہی ہے ، حالیہ بجٹ عوام کے لیے نہیں،سراج الحق

حسب روایت خواص کے لیے بنایا گیاہے ، اس کا جتنا بھی الٹرا سائونڈ کیا جائے ، کچھ نہیں نکلے گا ، عام پاکستانی کی فلاح و بہبود کے لیے اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں،امیر جماعت اسلامی پاکستان

بدھ 9 مئی 2018 23:33

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 مئی2018ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ حکومت اپنے آخری دنوں میں بھی ون ویلنگ کر رہی ہے ۔ حالیہ بجٹ عوام کے لیے نہیں ، حسب روایت خواص کے لیے بنایا گیاہے ۔ اس کا جتنا بھی الٹرا سائونڈ کیا جائے ، کچھ نہیں نکلے گا ۔ عام پاکستانی کی فلاح و بہبود کے لیے اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں ۔

جب تک معاشی نظام سودی بنیاد پر رہے گا ، ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ حکومت نے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر کے اٹھارویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے جب تک حکومت پر عوام کا اعتماد بحال نہیںہوتا ، لوگ ٹیکس نہیں دیں گے ۔ موجودہ ٹیکسیشن نظام ناکام ہوچکا ہے اس لیے ضروری ہے کہ زکوة و عشر کا پاکیزہ نظام اپنایا جائے ۔ ٹیکس کی بجائے زکوة و عشر کا نظام اختیار کیا جائے تو پہلے دن ہی زکوة دینے والوں کی تعداد 9 کروڑ تک پہنچ جائے گی جبکہ ٹیکس صرف 9 لاکھ افراد دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

کرپشن کی وجہ سے سٹیل ملز ، ریلوے ، پی آئی اے ، واپڈا سمیت قومی ادارے سینکڑوں ارب روپے کے خسارے میں ہیں لیکن مالیاتی کرپشن ختم کرنے کے لیے کسی سکیم کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ میں بجٹ تقریر اور بعد ازاں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ سراج الحق نے کہاکہ بجٹ کے بارے میں صوبوں سے مشاورت کی گئی نہ نیشنل ایوارڈ کا خیال رکھا گیا ۔

مثالی بجٹ میں انتظامی اور غیر ترقیاتی اخراجات کم ہوتے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود پر زیادہ خرچ کیا جاتاہے مگر موجودہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں کی بجائے زیادہ پیسہ انتظامی اخراجات کے لیے رکھا گیاہے جس سے تمام شعبوں میں فنڈز کی کمی کا مسئلہ پیدا ہوگیاہے ۔ انہوںنے کہاکہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک کا کوئی معاشی نظام ہی نہیں ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ لوڈشیڈنگ بدامنی ، خراب معیشت اور بے روزگاری ہمیں وراثت میں ملی تھی ، اب یہ حکومت بھی آنے والی حکومت کے لیے یہی مسائل چھوڑ کر جارہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ختم کر کے ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی کا نظام بنایا جائے ان ڈائریکٹ ٹیکس میں ارب پتی او ر غریب چوکیدار سے یکساں ٹیکس وصول کیا جارہاہے جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہاہے ۔ انہوںنے کہاکہ ابھی تک کسی حکومت نے بھی معاشی ڈاکو منٹیشن نہیں کی جس کی وجہ سے حکومت اندھیرے میں ہے اور اس کی معاشی پالیسیاں بھی اندھیرے میں بن رہی ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ بجٹ میں 2221 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں جبکہ سودی نظام چلانا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت نے پانچ سالوں میں پانچ ہزار ارب قرضہ لے کر سابقہ حکومتوں کے ریکارڈ توڑدیے ہیں ۔ قرضوں کی پالیسی نے ہماری آنے والی نسلوں کوبھی مقروض کردیاہے ۔ بجٹ میں تعلیم کے لیے صرف 37 ارب اور صحت کے لیے 25 ارب رکھے گئے ہیں جو کہ حکومت کے تعلیم عام کرنے اور مفت علاج کے اپنے دعوئوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔

انہوں نے کہاکہ 65 فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں ۔ موجودہ بجٹ میں دیہاتوں کو آباد کرنے اور آبادی کا رجحان شہروں کی طرف سے ختم کرنے کی کوئی سکیم نہیں دی گئی ۔ انہوںنے کہاکہ بجٹ میں کراچی ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے لیے کوئی خصوصی پیکیج نہیں دیا گیا ۔کراچی کا ایس تھری منصوبہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے گٹروں کا پانی چوکوں چوراہوں میں بہہ رہاہے مرکزی حکومت نے آٹھ ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا ، مگر اس نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ۔

کراچی میں صاف پانی کا منصوبہ 4 A،2000ء میں شروع کیا گیا تھا جو حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجودابھی تک نامکمل ہے ۔ کراچی میں پچا س لاکھ شہری روزانہ سفر کرتے ہیں لیکن حکومت نے اپنا ہی اعلان کردہ گرین لائن منصوبہ مکمل نہیں کیا ۔ کراچی کو روزانہ 2300 کیوسک پانی کی ضرورت ہے جبکہ صرف چھ سو کیوسک پانی ملتاہے ۔ کراچی کے مسائل کے لیے کم ازکم پانچ سو ارب دینا چاہیے تھا اس لیے کہ کراچی کی ترقی پورے پاکستان کی ترقی ہے ۔

اس بجٹ میں کشمیر اور خیبر پختونخوا کے لیے کوئی میگا پراجیکٹ اعلان نہیں کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر چیز سے نوازا ہے لیکن غلط نظام کی وجہ سے ہم غربت اور پسماندگی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ مدینہ کا اسلامی نظام ہمارے لیے ماڈل بنے گا تو ہم ترقی کریں گے ۔