بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ، پارلیمنٹ کو مذمت کرنی چاہیے‘ خورشید شاہ

پاکستان کے سیاستدان غیر محفوظ ہیں، ہم کہاں جائیں، اپنے اپنے حصار میں بندھے ہوئے ہیں، اکیلے اکیلے مرتے جائیں گے،قوم ماتم کرے کہ بے حسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایک لیڈر کے قاتلوں کو چھوڑا گیا، اپوزیشن لیڈر کا قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر گفتگو اس حادثے کو دس سال سے زائد ہو گئے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر یہ سماعت ہو سکتی ہے، اس بارے میں عدلیہ کو خط لکھا جا سکتا ہے، اسپیکر ایاز صا دق

جمعرات 10 مئی 2018 19:09

بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ، پارلیمنٹ کو ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 10 مئی2018ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ، پارلیمنٹ کو اس کی مذمت کرنی چاہیے، پاکستان کے سیاستدان غیر محفوظ ہیں، ہم کہاں جائیں،، اکیلے اکیلے مرتے جائیں گے،قوم ماتم کرے کہ بے حسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایک لیڈر کے قاتلوں کو چھوڑا گیا، جبکہ اسپیکر ایاز صا دق نے کہا ہے کہ اس حادثے کو دس سال سے زائد ہو گئے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر یہ سماعت ہو سکتی ہے اس بارے میں عدلیہ کو خط لکھا جا سکتا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق جمعرات کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر بات کر تے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ یہ ایوان ملک کا سب سے بڑا ایوان ہے، جب بھی سیاسی جماعتیں ملک میں نہیں ہوتیں تو اسے ڈکٹیٹر شپ کہا جاتا ہے، بے نظیر بھٹو صرف ایک پارٹی کی لیڈر نہیں تھیں بلکہ عوام کی لیڈر تھیں، جب بے نظیر بھٹو پاکستان آرہی تھیں تو انہیں روکا بھی گیا، بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا،جب بے نظیر کی شہادت ہوئی تو دو گھنٹے میں جگہ صاف کی گئی،ایک حملہ مشرف پر بھی ہوا تھا ، مشرف پر حملہ ہوا تو جگہ کو چار دن کور کئے رکھا، چپ کے ذریعے دہشت گرد پکڑے گئے، یہ کھلا قتل تھا ساری چیزیں سامنے آ گئی تھیں، بے نظیر بھٹوکے قاتلوں کو کس کے کہنے پر چھوڑا گیا انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاستدان غیر محفوظ ہیں، ہم کہاں جائیں، دنگا فساد کریں پاکستان پہلے ہی بہت مسائل کا شکار ہے، پارلیمنٹ کو اس کی مذمت کرنی چاہیے، ہم اپنے اپنے حصار میں بندھے ہوئے ہیں، اکیلے اکیلے مرتے جائیں گے، پیپلز پارٹی کا نقصان ضرور ہوا ہے، آپ کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، آج قوم ماتم کرے کہ بے حسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایک لیڈر کے قاتلوں کو چھوڑا گیا، کل کا دن عدالتی تاریخ کا کالا دن ہو گا انہوں نے کہا کہ سندھ میں پانی نہیں ہے، جانوروں کے پینے کیلئے بھی نہیں ہے،سندھ میں قحط ہے، کوٹری بیراج میں پانچ ہزار کیوسک پانی ہے، بہت بڑا ظلم ہورہا ہے، لوگ سڑکوں پر نکلیں گے، حکومت کو ایمرجنسی لگانی چاہیے، کم سے کم جانور تو پانی پیئیں ،ہو سکتا ہے مجھے بھی احتجاج کیلئے جانا پڑے، حکومت نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی، آپ نے اپنا کام خود تباہ کیا ہے، اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ دس سال سے زائد ہو گئے ہیں اس حادثے کو، روزانہ کی بنیاد پر یہ سماعت ہو سکتی ہے عدلیہ کو خط لکھا جا سکتا ہے ،وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ یہ بہت بڑا سانحہ تھا، وہ صرف پیپلز پارٹی کی لیڈر نہیں تھی، انہوں نے کہا کہ پانی کا سنگین مسئلہ ہے، وزیراعظم کی سطح پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے، چڑیاں چگ گئیں کھیت کی آواز چار مہینے پہلے بھی سنائی دی تھی، اقتدار تو آنی چانی چیز ہے، جمہوری عمل چلتا رہنا چاہیے، ہمیشہ پارلیمنٹ کے اندر اختلاف رائے ہوتے ہیں، 31مئی کے بعد ہم الیکشن میں جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

۔ وزیر قانون محمود بشیر ورک نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معاملہ ابھی تک زیر التواء ہے ،ملزمان کو رہا کیا جا رہا ہے، ضمانتیں کی جا رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی روزانہ سماعت ہورہی ہے، بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ دس سال سے زیر التواء ہے، جب بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا تو اس سے پہلے نواز شریف کے جلوس پر بھی حملہ ہوا، نواز شریف تمام خطرات کے باوجود ہسپتال پہنچے، کارکنان نے نواز شریف کو کہا کہ آپ اپنے آپ کو بچائیں، محمود بشیر ورک نے کہا کہ ہم تقسیم ہو چکے ہیں، یہ اندوہناک رویہ ہے، ہمارے وزراء پر حملے ہو رہے ہیں ۔