سینیٹ کو مالیاتی اختیارات دینے کیلئے دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بننی چاہئے،ایوان بالا کے ارکان کا مطالبہ

جمعرات 10 مئی 2018 22:26

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 مئی2018ء) ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سینیٹ کو مالیاتی اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ اس سلسلے میں دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بننی چاہئے۔ سینیٹ کی سفارشات بجٹ میں شامل نہ ہونے سے محنت اور قومی خزانہ کا ضیاع ہوتا ہے۔

جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سینیٹر شیری رحمان نے عوامی اہمیت کے معاملہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کو منی بل کے حوالے سے اختیارات دیئے جائیں۔ اس حوالے سے کئی بات بات ہو چکی ہے، قراردادیں بھی پیش ہوئیں لیکن سینیٹ کے مالیاتی اختیارات نہیں ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سینیٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر ہونے چاہیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ سینیٹ کو مزید اختیارات دیئے جائیں، بیلنس آف پاور ہونا چاہئے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمان سینیٹ، اسمبلی اور صدر پاکستان پر مشتمل ہے، منی بل صرف قومی اسمبلی میں ہی پیش ہو سکتا ہے، ہم جو سفارشات دیتے ہیں وہ قومی اسمبلی کو بھیج دی جاتی ہیں، قومی اسمبلی ان سفارشات پر توجہ نہیں دیتی اور ہماری تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، آئین خاموش ہے کہ یہ سفارشات منظور کرنا ضروری ہیں یا نہیں اور کیا مسترد کرنے کی وجوہات دینا ہوں گی یا نہیں۔

سینیٹ کی فنانس کمیٹی جو اتنی محنت کرتی ہے اور اس پر جو قومی خزانہ سے رقم لگتی ہے وہ ضائع چلی جاتی ہے۔ قائد ایوان حکومت سے بات کر کے ایک بل لے آئیں، اس پر بحث ہو۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ سینیٹ ہائوس آف فیڈریشن ہے۔ اس میں سب صوبوں کی نمائندگی ہے۔ آئینی خلاء کو پُر کیا جانا چاہئے۔ سکندر میندھرو نے کہا کہ منی بل میں سینیٹ کے مشورے کی بھی اہمیت ہونی چاہئے۔

یہ ایوان مستقل رہتا ہے۔ قومی اسمبلی کی طرح تحلیل نہیں ہوتا اس لئے آئین میں جو کمزوری ہے اس کو دور کیا جائے۔ سینیٹر اے رحمان ملک نے کہا کہ صدر، وزیراعظم، سپیکر بھی ان ڈائریکٹ منتخب ہوتے ہیں۔ سینیٹ ایوان بالا ہے۔ اس کو اہمیت دینی چاہئے۔ ہماری سفارشات ماننا ناگزیر نہیں ہوتا، ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، ہماری سفارشات کو نہیں ماننا تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ہماری سٹیٹ کا سٹرکچر عدم توازن کا شکار ہے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ اس حوالے سے سینیٹ متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے۔ طاہر بزنجو نے کہا کہ وفاق کی اس علامت ایوان کو ہم نے مباحثے کے کلب میں تبدیل کر دیا ہے۔ جاوید عباسی نے کہا کہ یہ آئینی معاملہ ہے، اس کو آئینی انداز میں دیکھنا ہوگا۔ اس بارے میں اگر کمیٹی بنا دی جائے تو بہتر ہے۔

دونوں ایوانوں کے ممبران اس کمیٹی میں ہونے چاہئیں۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ سینیٹ بہت محنت سے سفارشات تیار کرتی ہے، انہیں اہمیت دینی چاہئے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ سینیٹ کے مالیاتی اختیارات کے حوالے سے کمیٹی آف دی ہول کے اجلاس میں بھی بات ہوئی تھی۔ کمیٹی بنا کر اس معاملے پر بات کی جائے۔ سینیٹر امام دین نے بھی سینیٹ کے اختیارات بڑھانے کی تجویز دی۔

سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ جو اختیارات ایوان زیریں کو حاصل ہیں وہ ایوان بالا کو حاصل کیوں نہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کہ ایوان بالا کو بجٹ کے حوالے سے اختیارات نہیں۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ سینیٹ ہائوس آف فیڈریشن ہے۔ سینیٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر ہونے چاہئیں۔ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بھی ہو تو قومی اسمبلی سینیٹ کی رائے کو عددی اکثریت کی بناء پر بلڈوز کر سکتی ہے۔