جو کچھ قانون کے مطابق ہوگا وہی چلے گا ، ریاستی اداروں کو دشمن نہ سمجھیں یہ ہمارے رکھوالے ہیں،ان ادارو ں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں ،

ئی مشکل حالات میں ہمیں تحفظ فراہم کررہے ہیںدشمن کہیں اور بیٹھے ہیں ،ہم آپ کاساتھ چھوڑ کر نہیں جائیںگے،ہمارے پاس ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کیلئے الفاظ نہیں ،ہمارے مطابق ہزارہ برادری کے افراد کا قتل نسل کشی تھی اس لئے اس سلسلے میں ازخودنوٹس لیا،ہزارہ برادری کو تحفظ دلانے کیلئے تمام تر احکامات دیںگے ، ٹارگٹ کلنگ اوردیگر سے متعلق رپورٹ 15روز میں پیش کی جائے ، معاملات کے جائزہ کے لئے کمیٹی تشکیل دیںگے چیف جسٹس ثاقب نثار اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ کے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس

جمعہ 11 مئی 2018 23:40

جو کچھ قانون کے مطابق ہوگا وہی چلے گا ، ریاستی اداروں کو دشمن نہ سمجھیں ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 مئی2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس جناب جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جو کچھ قانون کے مطابق ہوگا وہی چلے گا ، ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں ان کو دشمن نہ سمجھیںادارے ہمارے رکھوالے ہیں اور مشکل حالات میں ہمیں تحفظ فراہم کررہے ہیںدشمن کہیں اور بیٹھے ہیں ہم آپ کاساتھ چھوڑ کر نہیں جائیںگے،ہمارے پاس ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کیلئے الفاظ نہیں ہے ،ہمارے مطابق یہ نسل کشی تھی اس لئے اس سلسلے میں ازخودنوٹس لیا،ہزارہ برادری کو تحفظ دلانے کیلئے تمام تر احکامات دیںگے ،ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اوردیگر سے متعلق رپورٹ 15روز میں پیش کی جائے ،ہم کمیٹی تشکیل دیںگے جو معاملات کودیکھے گی۔

(جاری ہے)

جمعہ کے روز سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جس میں ہم ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مذمت کرسکیں میرے مطابق یہ نسل کشی ہے جس پر مجھے سوموٹونوٹس لینا پڑا میں ہزارہ برادری سے بہت دفعہ ملاقات کرچکاہوں ہم انہیں تحفظ دلانے کیلئے تمام تر احکامات دیںگے اس مسئلے پر کوئی بھی دورائے موجود نہیں ہمیں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے کئے گئے اقدامات سے متعلق بتایاجائے جبکہ ہزارہ برادری کی جانب سے ان کے وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے عدالت کوبتایاکہ ٹارگٹ کلنگ کے باعث جانی نقصان کے ساتھ ساتھ معاشی نقصان بھی ہوتاہے ،ہزارہ طلباء کو تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی انہیں ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں ہزار ہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی جائیدادوں کی قیمتیں گر چکی ہیں بلکہ ہمارے لوگ جان بچا کر مجبور ی کی حالت میں آسٹریلیا چلے گئے ہیں جن کے شناختی کارڈز نادرا نے بلاک کردئیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم اسی لئے آئے ہیں تاکہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ حل کرسکیں آئی جی ایف سی کہاں ہیں جس پر ایف سی کے نمائندہ کی جانب سے عدالت کوبتایاگیاکہ آئی جی ایف سی اسلام آباد گئے ہیں اس لئے وہ سماعت کے دوران پیش نہیں ہوسکتے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے ہزارہ برادری کی جان ومال کی حفاظت کرنی ہے جو آدمی کاروبار نہیں کرسکتا وہ پاکستان میں رہ نہیں سکتا تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کہ کس طرح یہ سب کچھ ہورہاہے سماعت کے دوران ہزارہ برادری کے وکیل افتخاری علی ایڈووکیٹ نے عدالت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے بتایا کہ ان کے 10سے 12عمائدین کی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے تو چیف جسٹس نے کہاکہ اگر عمائدین کی سیکورٹی لازمی ہے تواسے بحال کردیاجائے گاجس پرڈی آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ ہم نے سیکورٹی واپس نہیں لی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہزارہ برادری کے تحفظ کے حوالے سے مسائل کیاہیں ہم انہیں حل کرینگے اس موقع پر ہزارہ برادری کے وکیل نے بتایاکہ 20 برس سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ جاری ہے لیکن ان واقعات میں ملوث کوئی بھی ملزم آج تک گرفتارنہیں کیاجاسکاہے اب تک ایک ہزار لوگ مارے گئے ہیں اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ قائداعظم نے کہاتھاکہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو رہنے کا حق ہے جبکہ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہی جس پر آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ٹارگٹ کلنگ کی اعداد وشمار سے متعلق رپورٹ میں کہاگیاتھاکہ 2012ء سے اب تک مختلف مکاتب فکر کے 124افراد، 106سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور20آبادکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔

آئی جی پولیس نے بتایا کہ گزشتہ 6برسوں میں 399ہزارہ برادری کے افراد، 36سنی، 29 آبادکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں 344سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور 19اقلیتی برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جبکہ 2013 ء میں سب سے زیادہ 208 ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔تاہم آئی جی پولیس نے عدالت کوبتایا کہ اب حالات میں کافی بہتری آگئی ہے، صوبے میں 4 ماہ کے دوران 9 ہزارہ برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا جبکہ رواں سال کے دوران28 سیکورٹی فورسز کے اہلکار بھی شہید ہوئے اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکورٹی فورسز کی شہادت کا ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے کیا تعلق ہی اس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ ہماری بہت محنت ہے، جس کی وجہ سے ہزارہ برادری اور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں نہ صرف کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اس میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرلیاگیاہے واٹر ٹینکر دھماکے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرلیاگیاہے چیف جسٹس نے کہاکہ شہر میں اتنا بڑا مسئلہ چل رہاہے بتایاجائے کہ ادارے کیا کررہے ہیں تو آئی جی نے کہاکہ اقدامات جاری ہے جس کے باعث واقعات کی کمی ہوئی ہے ہم محنت کررہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ محنت کے ساتھ نتائج آنے چاہئیں ،افسوس ہورہاہے کہ ہزارہ بچوں کو نوکریاں نہیں مل رہی اگر ان کیلئے اقدامات نہیں کرسکتے تو ان کیلئے ہسپتال اور تعلیمی ادارے الگ بنائیں جو لوگ وارداتیں کررہے ہیں ان کو ان ارتھ کریں خواتین کے ساتھ مرد سفر نہیں کرسکتے ،حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دے، یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کے لیے بات کی جائے۔

اس پر ہزارہ برادری کے وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیکورٹی پلان 2013ء پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکاہے اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہزارہ اور سنی سمیت دیگر لوگ ہمارے جسم کا حصہ ہیں جبکہ وکیل ہزارہ برادری افتخار علی نے موقف اختیارکیاکہ ہم ایک شہر سے دوسرے شہر سفرسکتے ہیں اور نا ہی سبزی خریدنے کیلئے منڈی جاسکتے ہیں اس کے علاوہ معاوضہ کیلئے بھی ہمیں سالہاسال دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر 2013ء کے سیکورٹی پلان کو اپ ڈیٹ کرکے اس پرسختی سے عملدرآمد کو ممکن بنایاجائے تو حالات بہترہوسکتے ہیں اس پر ہزارہ برادری کے وکیل اثبات میں جواب دیا۔

طاہرہزارہ نے بتایاکہ سب سے زیادہ مسئلہ زائرین کا ہے انہیں این او سی نہیں ملتی انہوں نے ٹارگٹ کلنگ کے کلیم کرنے والوں کے ویڈیوز کی یوایس بی عدالت میں پیش کی اور کہاکہ متعلقہ اداروں سے اس سلسلے میں پوچھاجائے اس موقع پر چیف جسٹس نے حکم دیاکہ اس سلسلے میں 15دنوں میں رپورٹ عدالت کو پیش کیاجائے ہم ایک کمیٹی تشکیل دیں گے، جو یہ معاملات دیکھے گی، لاپتہ افراد کیلئے بھی اقدام کررہے ہیں آپ نے یہاں سے غیر مطمئن نہیں جانا، ہم آپ کو سارا دن سنیں گے۔

تمام افراد کو سننے کے بعد موثر احکامات دیںگے سماعت کے دوران ہزارہ برادری کے رہنماء میجر (ر)نادر علی نے بتایا کہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)بنائی گئی تھی اس کی رپورٹ اب تک نہیں آئی اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ملزمان کے خلاف کیا اقدامات کئے گئے ہیں اس موقع پر جیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے پیش ہوکر بتایاکہ ہزارہ خواتین کو بھی بے شمار مسائل درپیش ہیں تو چیف جسٹس نے کہاکہ وہ اس سلسلے میں پٹیشن فائل کریں جلیلہ ایڈووکیٹ اتوار تک اسلام آباد میں آئینی درخواست دائر کریں چیف جسٹس نے کہاکہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ کمیٹی بنائی جائے جو عملدرآمد کے بارے میں رپورٹ دیں اس موقع پر نورین بتول نامی خاتون نے 4لاپتہ افراد سے متعلق درخواست عدالت میں جمع کرائی اور کہاکہ ان کے اہل خانہ کے 4افراد گزشتہ 5ماہ سے اٹھائے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ وہ اس سلسلے میں آئی جی پولیس ،آئی جی ایف سی اور دیگر حکام کو کاپی بھیجیںگے چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں ان کو دشمن نہ سمجھیںادارے ہمارے رکھوالے ہیں اور مشکل حالات میں ہمیں تحفظ فراہم کررہے ہیںدشمن کہیں اور بیٹھے ہیں ہم آپ کاساتھ چھوڑ کر نہیں جائیںگے سماعت کے دوران ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے بتایاکہ شہر کی ہر گلی میں ہمارا خون بہایاگیاہے ان واقعات کے بارے میں ایجنسیوں کی فیڈ بیک کہاں ہے ایجنسیوں کی پہنچ دور دور تک ہوتی ہے سماعت کے موقع پر چیئرمین ہزارہ جرگہ قیوم چنگیزی نے بتایا کہ ہمارے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوئے بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے جن دہشت گردوں کو سزا ملی، ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ و ان کے چہیتے ہیں۔

قیوم چنگیزی نے کہا کہ ہمارے شہدا کے لواحقین کو ملازمتیں نہیں دی جا رہی ہیں، ہم رعایت نہیں قابلیت کی بنا پر نوکری چاہتے ہیں ہماری جائیدادیں اونے پونے خریدی گئی ہے بلکہ ہم پر تعلیمی دروازے بھی بند ہوئے ہیں ہماری2ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے لیکن ان کے لواحقین کو ملازمتیں فراہم نہیں کی گئی اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جو کچھ قانون کے مطابق ہوگا وہی چلے گا ۔

آئی جی پولیس نے کہاکہ کوئٹہ شہر میں ہزارہ برادری کے تمام ایشوز سے متعلق ایک مکمل رپورٹ دی ہے جبکہ پولیس کے مسائل سے متعلق بھی 10تجاویز دے چکے ہیں انہوں نے بتایاکہ بلوچستان کے 24اضلاع میں ایس پی نہیں ہے بہت سے آفیسرز کوئٹہ نہیں آنا چاہتے جب تک آفیسرز کی کمی ہوگی اس وقت تک مسائل حل نہیں ہونگے بعدازاں ڈویژنل بینچ نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔یادرہے کہ 02 مئی کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ پر از خود نوٹس لیا تھا۔