اچھی کوالٹی کی روئی کی کم دستیابی ، بھاؤ میں فی من 300 روپے کی کمی

نئی فصل کی بوائی میں اضافہ، پانی کی رسائی شروع، 30 لاکھ گانٹھیں درآمد ، یارن کی درآمد کے متعلق ٹیکسٹائل تنظیموں میں اختلاف

ہفتہ 12 مئی 2018 21:54

اچھی کوالٹی کی روئی کی کم دستیابی ، بھاؤ میں فی من 300 روپے کی کمی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2018ء) گزشتہ ہفتہ کے دوران مقامی کاٹن مارکیٹ میں ملوں کی جانب سے روئی کی خریداری میں کمی اور خصوصی طور پر اچھی کوالٹی کی روئی کی کم دستیابی کے باعث روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر مندی کا رجحان رہا روئی کے بھاؤ میں فی من 200 تا 300 روپے کی کمی واقع ہوئی صوبہ سندھ و پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 6000 تا 7600 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن نے بھی روئی کے بھا ؤمیں فی من 100 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 7400 روپے کے بھا ؤپر بند کیا۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ کپاس کی سیزن اختتام پذیر ہوگئی ہے پاکستان کاٹن جنرز نے یکم مئی تک ملک میں کپاس کی کل پیداوار ایک کروڑ 15 لاکھ 80 ہزار گانٹھوں کی حتمی رپورٹ جاری کردی ہے۔

(جاری ہے)

سب کی نظریں اب کپاس کی نئی سیزن 19-2018 پر لگی ہوئی ہیں صوبہ سندھ و پنجاب کے زریں علاقوں میں کپاس کی بوائی شروع ہوچکی ہے۔

وفاقی محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مئی کے آخر تک کپاس کی بوائی مکمل کرلیں۔ لیکن پانی کی کمی کے باعث بوائی میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ صوبہ سندھ و پنجاب کے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پانی کی جزوی رسائی شروع ہوگئی ہے کاشت میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ آئندہ سال کیلئے حکومت نے کپاس کی پیداوار کا تخمینہ ایک کروڑ 43 لاکھ 40 ہزار گانٹھوں کا مقرر کیا ہے۔

گو کہ فی الحال پیداوار کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن پچھلے سالوں کے تجربہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ فی الحال پیداوار کا اندازہ ایک کروڑ 25 تا 30 لاکھ فی من 160 وزن کی گانٹھوں کا لگانا مناسب ہے۔ فی الحال جنرز کے پاس کپاس کی بمشکل 2 لاکھ گانٹھوں کا قلیل اسٹاک موجود ہے۔ نسیم عثمان کے مطابق بین الاقوامی کپاس منڈیوں میں بھی روئی کے بھا میں ملا جلا رجحان ہے۔

اس سال مقامی ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز نے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 30 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے لئے ہیں جس میں سے بیشتر شپمنٹ ہوچکی ہے۔ دریں اثنا APTMA اور ٹیکسٹائل مصنوعات تیار کرنے والے اداروں کے درمیان کاٹن یارن کی درآمد کے مختلف کشمکش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ APTMA کے اعتراض کی وجہ سے ٹیکسٹائل اسپنرز کی سہولت کیلئے حکومت نے بیرون ممالک سے درآمد کئے جانے والے یارن پر درآمدی ڈیوٹی عائد کردی جس کی ٹیکسٹائل والیو ایڈٹ سیکٹر نے شدید مخالفت کی ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک اور نئی ٹیکسٹائل پالیسی دینے کا اعلان کیا ہے ٹیکسٹائل و دیگر برآمد کنندگان کیلئے نا اہل وزیر اعظم نواز شریف نے 180 ارب روپے کا تقریبا ایک سال پہلے رعایتی پیکج جاری کیا تھا اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا خصوصی طور پر برامد کنندگان کے 200 ارب روپے کا ریفنڈ اب تک نہیں ہوا ہے اس صورت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے کچھ لوگ نئی پالیسی کو نیا "لولی پوپ" کہتے ہیں کئی لوگ اسے انتخابات کا نیا اسٹنٹ گردان تے ہیں۔