اضافہ شدہ آئٹم

سوشل میڈیا پر پابندی ممکن نہیں، اس کے مثبت استعمال کویقینی بنانے کیلئے نصاب میں مضامین ، ریاست کی سطح پر نگران ادارے کا کردار، عالمی سطح پر فورم ہونا چاہئے، سوشل میڈیا مفت اطلاعات کا ایک ذریعہ ہے تاہم مرچ مصالحہ لگانے سے اس کا منفی تاثر پیدا ہوتا ہے قومی خبر رساں ادارے اے پی پی کے زیر اہتمام نیوز ایجنسیز کی عالمی کانفرنس سے معروف صحافیوں کا خطاب

اتوار 13 مئی 2018 20:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 مئی2018ء) نیوز ایجنسیز کی عالمی کانفرنس میں معروف صحافیوں نے قرار دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگانا ممکن نہیں تاہم اس کے مثبت استعمال کویقینی بنانے کیلئے نصاب میں مضامین شامل کرنے، ریاست کی سطح پر نگران ادارے کا کردار اور عالمی سطح پرایک فورم ہونا چاہئے ، سوشل میڈیا جہاں منفی مقاصد اور پروپیگنڈے کیلئے استعمال ہوتا ہے وہاں اس کا اطلاعات کیلئے استعمال بھی اہم جزو ہے۔

اتوارکو ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے زیراہتمام نیوز ایجنسیز کی دوروزہ عالمی کانفرنس کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیاء الدین نے کہا کہ سوشل میڈیا کا استعمال جہاں مثبت مقاصد کیلئے ہوتا ہے وہاں پر یہ پروپیگنڈے کیلئے بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ چیزوں کو درست انداز میں پیش نہیں کیا جاتا، اس کے ذریعہ غلط اطلاعات بھی فراہم کی جاتی ہیں، ایک ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں اس کا استعمال ایک مثال ہے۔

(جاری ہے)

اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز کے چیئر مین ڈاکٹر ظفراقبال نے کہا کہ سوشل میڈیا سے بعض اوقات اہم اطلاعات بھی ملتی ہیں تاہم اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے جس پر سب کوتشویش ہے، یہ پروپیگنڈے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے اس کے ذریعہ تہذیبوں ، معاشروں اور انفرادی طور پر کسی کے خلاف بھی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، یہ میڈیا گوکہ مفت اطلاعات کا ایک ذریعہ ہے تاہم مرچ مصالحہ لگانے سے اس کا منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے نصاب متعارف کرایا جانا چاہئے، نیوز ایجنسیاں اسے مارکیٹنگ کے طور پر استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانچ کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، سوشل میڈیا کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ایک تحقیق کے مطابق اس کے مستقل استعمال سے ڈپریشن کا سامنا بھی رہتا ہے، اسی میڈیا کے ذریعہ ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری پرمبنی حضرت محمدؐ کے توہین آمیزخاکے شائع کئے گئے تاہم گوگل نے یہ خاکے ہٹانے سے انکار کردیا، اس کا اسلام اور پاکستان کے خلاف منفی طور پر استعمال ہوتا ہے، سوشل میڈیا پرغلط خبریں اور تصویریں پوسٹ کی جاتی ہیں یہاں تک کہ ترکی کے صدر کو بھی سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے پر اپنا رد عمل دینا پڑا اس قسم کے مسائل سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام میں آگاہی ہو، روہنگیا اور میانمارکے مسلمانوں کے خلاف برما کے مظالم کی درست تصویر عالمی میڈیا میں پیش نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ انتہا پسندانہ اوربنیاد پرست سوچ کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے، سوشل میڈیا کیلئے ریاست کی سطح پرنگران ادارہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر ایک ایسا فورم ہونا چاہئے جوسوشل میڈیا سے متعلقہ شکایات نمٹانے کیلئے کردار ادا کرے۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے کہا کہ وہ اس حوالے سے سفارشات مرتب کریں۔

ڈاکٹر عبدالجبار نے کہا کہ سوشل میڈیااطلاعاتی آلودگی کا سبب ہے، کوئی بھی میڈیا معاشرے کے رویوں کی عکاسی کرتا ہے، نیوز ایجنسیوں اور سوشل میڈیا کے درمیان خبر کی ساکھ کا فرق ہے ، ایجنسیوں کی خبریں ساکھ پرمبنی اور مستند اطلاعات ہوتی ہیں ان کے پاس مستقل ٹیم ہوتی ہے تاہم سوشل میڈیا میں اس کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیاعلم کا سمندر ہے کچھ لوگوں کے نزدیک یہ جمہوری عمل کے استحکام کا بھی ذریعہ ہے تاہم کچھ لوگوں کے نزدیک عدم استحکام کا بھی ایک ذریعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا جعلی خبروں اوراطلاعات کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف مارڈرن لینگویجز کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ مفتی جمیل الدین نے کہا کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کیلئے تیزی سے معلومات کا حصول آسان بنا دیا ہے تاہم اطلاعات کے مستند ہونے کے بارے میں سوال پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے تاکہ حقیقی اور جعلی خبر میں تمیز کرتے ہوئے انہیں الگ کر سکیں۔

تیونس کی قومی نیوزایجنسی کے بیرونی تعلقات کے ڈائریکٹر ایلوئی چائوکی نے کہا کہ سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا صرف جعلی اور غلط خبروں کا ہی نہیں بلکہ روابط کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا کا ارتقائی عمل ایک تاریخی لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سے کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اوراس کا استعمال مفید بنایا جاسکتا ہے اس پر غورکرنا ہوگا ، سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا ایک اہم ذریعہ ہے ، سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کی بجائے اپنی نوجوان نسل کی تربیت کی جانی چاہئے۔

قطر کی نیوز ایجنسی کے شعبہ نیوز کے ڈائریکٹر جاسم احمد الحامدی نے کہا کہ سوشل میڈیا ایک بڑا ایشو ہے، اس کو دنیا بھرمیں نیوزسورس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاہم قطر میں اس کو خبرکے ذریعہ کے طور پر نہیں لیتے۔ سعودی عرب کی یونین آف او آئی سی کے نیوز ایجنسیز کے نیوز ڈائریکٹر الصادق بشیربابیکر ہارون نے کہا کہ سوشل میڈیا کو مثبت مقاصد کیلئے استعمال کیاجانا چاہئے۔