اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس، بجٹ پر تیسرے روز بھی بحث جاری رہی

بدھ 16 مئی 2018 23:24

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 مئی2018ء) سندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ کو اسپیکر آغا سراج درانی کی زیرصدارت ہوا، بجٹ پر تیسرے روز بھی عام بحث جاری رہی جس کے دوران فنکشنل مسلم لیگ کے رکن اسمبلی شہریار خان مہر نے افسران اور وزراء کی عدم موجودگی کی نشاندہی کی اور احتجاج کیا اپوزیشن ارکان بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر احتجاج میں شامل ہوگئے۔

اپوزیشن ارکان نے وزراء اور افسران کی عدم موجودگی کے خلاف نعرے لگائے اور علامتی واک آئوٹ بھی کیا۔ شہریار خان مہر نے کہا کہ ہم بجٹ پر بحث تو کررہے ہیں مگر کس کو سنائیں کوئی ہو تو بجٹ پر تقریر کریں۔ اسپیکر آغا سراج خان درانی نے کہا کہ یہ سبزی مارکیٹ نہیں ہے سبزی فروخت کرنے والی آوازیں نہ نکالیں جس پر اراکین اسمبلی ایک ساتھ کھڑے ہو گئے، اسپیکر کے ریمارکس کے خلاف احتجاج کیا۔

(جاری ہے)

بجٹ پر بحث میں حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے ارکان نے حصہ لیا۔ شہر یار مہر نے کہا کہ پیپلز پارٹی والوں کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں امن ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے،حالانکہ یہ حقیقت بھی سب کے علم ہے کہ 2008ء سے لیکر 2013ء تک آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہی تھے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور پاک فوج اور رینجرز نے حالات کو ٹھیک کیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگ اب جاگ گئے ہیں کرپٹ لوگوں کے گریبانوں میں ہاتھ ہوں گے، سندھ میں صرف کرپشن اور لوٹ مار کی گئی۔

ایم کیو ایم کی منحرف رکن ارم عظیم فاروق نے کہا کہ میںسمجھتی تھی کہ اسمبلی میں آکر عوام کی خدمت کروں گی، یہ اسمبلی میں آخری تقریر ہے، میں اب دوبارہ اسمبلی میں نہیں آؤں گی ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو پیرس نہ بنائو کراچی کو کراچی رہنے دو، حکومت دس سال میں دس بسیں چلاسکی ہے، صاف ستھرا سندھ پروگرام بعد میں چلائیں، پہلے ایوان کو صاف ستھرا کریں، ایوان میں صاف ستھرے لوگ نہیں ہوں گے تو کچھ نہیں ہو گا، گھوٹکی کے اسپتال میں سوئپر انجکشن لگاتا ہے۔

ایم کیو ایم کی منحرف خاتون رکن بلقیس مختارنے کہا کہ کراچی کے وسائل پر سب کی نظر ہے، کراچی کے مسائل کو کوئی حل نہیں کرتا، اب الیکشن ہے تو کراچی سب کو یاد آرہاہے۔ کراچی نے سب کو اپنے اندر سمولیا ہے، لیکن افسوس کے اس شہر کے باسیوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی حیدرآباد میرپورخاص کو کوئی لاوارث نہ سمجھے۔ ایم کیو ایم کے محمد دلاور نے کہا کہ حکمراں جماعت کا کراچی میں ووٹ بینک نہیں تو اس نے کم مردم شماری پر بات نہیں کی، کراچی میں روزانہ ہزاروں لوگ باہر سے آرہے ہیں، سندھ کا دارالحکومت کراچی ہے جسے اضافی فنڈز ملنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت طارق روڈ 54 کروڑ روپے میں بناکر ترقی کا دعوی کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر مہیش ملانی نے کہا کہ تھرپارکر میں آر او پلانٹس آپریشنل ہیں اور پیپلز پارٹی کی حکومت کچھ این جی اوز کے ذریعے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ ایم کیو ایم کے منحرف رکن شیخ عبداللہ نے کہا کہ سندھ حکومت بھی این جی اوز کے حوالے کردی جائے۔

انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں اسپتال اور کالج کی عمارت مکمل ہے لیکن انہوں نی کام شروع نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر ووٹ پکے کیے جارہے ہیں، پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم جلسے کررہی ہیں عوامی مسائل سے کچھ غرض نہیں، پی ایس پی ایشوز کی سیاست کررہی ہے۔ 2018ء میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ لینے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن سائرہ شہلیانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ سندھ حکومت عوام کی دن و رات خدمت کررہی ہے اس کی کوششوں کے باعث کراچی میں امن ہوا ہے، ایس آئی یو ٹی غریبوںکے لیے بہت سہولیات فراہم کررہا ہے، سندھ کے ایکس سو اسکولوں کی تزئین و آرائش کا کام سندھ حکومت نے مکمل کرایا ہے۔

پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اور صوبائی مشیر شمیم ممتاز نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے کمزور کو سہارا دیا۔ شمیم ممتازنے کہا کہ کے پی کے میں پولیس اصلاحات نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ نے درست کہا کہ ترقی سندھ میں دیکھنے آئیں لوگ اپنے حلقوں سے باہر نکلیں اور سندھ میں ترقی دیکھیں۔ شمیم ممتاز کی تقریر کے بعد ایوان کی کارروائی جمعرات کی صبح دس بجے تک ملتوی کردی گئی۔