پنجاب اسمبلی ، ضمنی بجٹ برائے سال 2017-18 کی مد میں کل مالیت 85 ارب 40 کروڑ روپے مطالبات زر کثرت رائے سے منظور

اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئیں کٹوتی کی تحریکیں مسترد

جمعرات 17 مئی 2018 20:44

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 مئی2018ء) پنجاب اسمبلی نے ضمنی بجٹ برائے سال 2017-18 کی مد میں کل مالیت 85 ارب 40 کروڑ روپے مطالبات زر کثرت رائے سے منظور کر لئے جبکہ ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئیں کٹوتی کی تحریکیں مسترد کر دیں، تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس حسب روایت 2 گھنٹے 55 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا، ایجنڈے پر ضمنی بجٹ برائے سال 2017-18 پر عام بحث تھی اور ضمنی مطالبات زر برائے سال 2017-18 پر بحث اور رائے شماری تھی۔

بحث کے دوران اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے ضمنی بجٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چند برس پہلے ضمنی بجٹ کی کوئی روایت نہیں تھی لیکن اس مرتبہ ضمنی بجٹ کے نام پر مختص فنڈز جس کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ بجٹ کی کاپی کو پڑھ کر مایوس ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

میری بہن وزیر خزانہ جو کہ ایک بڑی معیشت دان ہیں وہ سسٹم میں تبدیلی لائیں گی لیکن ایسا نہ ہو سکا، انہوں نے کہا کہ ایک مقروض صوبے کے عوام کے خادم اعلیٰ کے وزیراعلیٰ ہائوس کا روانہ کا خرچ 16 لاکھ روپے ہے، گورنر پنجاب کے بیرون ملک 53 لاکھ روپے خرچ ہوئے، ملک کے ہسپتالوں میں مریضوں کو دوائیں نہیں ملتیں، بچے فارغ پھر رہے ہیں ان کو ملازمت نہیں ملتی لہٰذا ایسے اخراجات نامناسب ہیں، اس کے علاوہ ضمنی بجٹ اخراجات سے بھرا پڑا ہے، 24 ارب روپے صاف پانی، ایجوکیشن کے لئے مختص کیے گئے، اس کے بعد صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا 5 فیصد حصہ تعلیم، صحت اور لاء اینڈ آرڈر پر اٹھ گیا، بہت سارے خرچ چونکہ سکیمیں اور منصوبے کے آخری مراحل میں ہیں اس لئے ان کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، انہوں نے کہا پنجاب کی فی کس آمدن بھی بڑھی ہے، روزگار میں اضافہ ہوا ہے، غربت کا معیار بہت کم ہو گیا ہے، تعلیمی معیار کے حوالے سے پنجاب رول ماڈل ہے۔

ضمنی بجٹ برائے سال 2017-18 کے ضمنی بجٹ کی مد میں منظور ہونے والی تحریکوں میں مطالبات زر کی 40 تحاریک میں مالیہ اراضی کی مد میں 9 کروڑ 60 لاکھ اور 5 ہزار، صوبائی آبکاری کی مد میں 12 کروڑ 64 لاکھ اور 43 ہزار روپے، جنگلات کی مد میں 5 کروڑ 66 لاکھ اور 30 ہزار روپے، اخراجات برائے قوانین موٹر گاڑیاں، آبپاشی و بحالی اراضی کی مد میں 2 ارب 75 کروڑ اور 92 لاکھ روپے، نظام عدل کی مد میں 82 کروڑ27 لاکھ 41 ہزار روپے، جیل خان جات و سزا یافتگان کی بستیوں کے لئے 5 کروڑ 25 لاکھ 63 ہزار روپے، پولیس کی مد میں 5 ارب 60 کروڑ 76 لاکھ روپے، تعلیم کی مد میں 19 ارب 86 کروڑ 83 لاکھ 17 ہزار روپے، خدمات صحت کی مد میں 17 ارب 16 کروڑ 27 لاکھ اور 57 ہزار روپے، زراعت کی مد میں 7 ارب 60 کروڑ 36 لاکھ اور 19 ہزار روپے، ماہی پروری کی مد میں 7 کروڑ 65 لاکھ روپے، امور پرورش حیوانات کی مد میں ایک ارب 69 کروڑ 89 لاکھ 43 ہزار روپے، امداد باہمی کی مد میں 15 کروڑ 89 لاکھ 12 ہزار روپے، صنعت کی مد میں 75 کروڑ 88 لاکھ 38 ہزار روپے، محکمہ جات کی مد میں 50 کروڑ 3 لاکھ 79 ہزار روپے، شہری تعمیرات کی مد میں ایک ارب 44 کروڑ 75 لاکھ اور 64 ہزار روپے، سٹیشنری اینڈ پرنٹنگ کی مد میں 10 لاکھ 62 ہزار روپے، شہری دفاع کی مد میں 3 کروڑ 9 لاکھ 97 ہزار، غلے اور چینی کی سرکاری تجارت کی مد میں 18 کروڑ 91 لاکھ 74 ہزار روپے، تعمیرات آبپاشی کی مد میں 2 ارب 84 کروڑ 59 لاکھ 81 ہزار روپے، شاہرات و پل کی مد میں 19 ارب 10 کروڑ 47 لاکھ 6 ہزار روپے، افیون کی مد میں ایک ہزار روپے، اسٹامپس کی مد میں ایک ہزار روپے، رجسٹریشن کی مد میں ایک ہزار روپے، دیگر ٹیکس و محصولات کی مد میں ایک ہزار روپے، انتظام عمومی کی مد میں ایک ہزار روپے، عجائب خانہ جات کی مد میں ایک ہزار روپے، صحت عامہ کی مد میں ایک ہزار روپے، محمکہ ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ کی مد ایک ہزار روپے، ریلیف کی مد میں ایک ہزار روپے، سبسڈیز کی مد میں ایک ہزار روپے، متفرق محکمہ جات ایک ہزار روپے، کوئلے اور میڈیکل سٹورز کی سرکاری تجارت کی مد میں ایک ہزار روپے، ترقیات کی مد میں ایک ہزار روپے، زرعی ترقی و تحقیق کی مد میں ایک ہزار روپے، ٹائون ڈویلپمنٹ کی مد میں ایک ہزار روپے، سرکاری عمارت کی مد میں ایک ہزار روپے اور قرضہ جات برائے میونسپلیٹیز/ خود مختار ادارہ جات وغیرہ کی مد میں ایک ہزار روپے برداشت کرنا پڑیں گے۔