قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2018-19ء کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس، ہائوس رینٹ سیلنگ اور ہائوس رینٹ الائونس میں 50 فیصد اضافہ گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک دیر تک کام کرنے والے ملازمین کے کنوینس الائونس میں 50 فیصد اضافہ کر دیا گیا

جمعہ 18 مئی 2018 13:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مئی2018ء) قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2018-19ء کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی ہے ۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کی طرف سے وفاقی بجٹ 2018-19ء کی منظوری دی گئی‘ بجٹ میں سینیٹ اور ارکان اسمبلی کی بجٹ تجاویز کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے مالیاتی بل میں بعض ترامیم پیش کی گئیں جن کی قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظوری دے دی۔

وفاقی بجٹ 2018-19ء کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس، ہائوس رینٹ سیلنگ اور ہائوس رینٹ الائونس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ زرعی، لائیو سٹاک اور ماہی گیری کے شعبوں کے لئے ٹیکس مراعات کا اعلان اور دفاعی بجٹ میں 200 ارب روپے سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 1030 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

12لاکھ روپے سالانہ یا ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر وزیر اعظم کے خصوصی اعلان کردہ پیکیج کے تحت انکم ٹیکس استثنیٰ دیا گیا ہے، تنخواہ دار طبقہ کے لئے ٹیکسز کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی ہے جس کے مطابق 4 لاکھ سے 8 لاکھ تک آمدن پر ایک ہزار روپے سالانہ جبکہ 8 لاکھ سے 12 لاکھ روپے پر 2 ہزار روپے کا برائے نام انکم ٹیکس لیا جائے گا۔ صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ملک بھر میں کھیلوں کے 100 سٹیڈیم بنائے جائیں گے۔

پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے‘ 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کی کم سے کم پنشن 15 ہزار روپے ماہانہ کردی گئی ہے۔ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے 100 ارب روپے کی لاگت سے خصوصی ترقیاتی پروگرام مکمل کیا جائیگا۔ آئندہ مالی سال کے لئے ایف بی آر کے محصولات کی وصولی کا ہدف 4435 ارب روپے ہوگا۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح 50 فیصد سے کم کرکے 25 فیصد اور 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔

ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لئے کمپوزٹ آڈٹ کا طریقہ متعارف کرایا جائے گا۔ بنکاری اور نان بنکاری کمپنیوں کے لئے سپر ٹیکس کی شرح سالانہ ایک فیصد کی شرح سے کم کردی جائے گی۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 2023ء تک 25 فیصد تک لایا جائے گا۔ مقامی طور پر لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے 21 اقسام کے پرزوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس مکمل ختم کردیا جائے گا۔

سٹیشنری کے لئے سیلز ٹیکس ختم کردیا جائے گا۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی موجودہ شرح بڑھا دی گئی ہے۔ انفرادی ٹیکس کی شرح کو کم کیا گیا ہے۔ 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن یا ایک لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد کے لیے ٹیکس سے مکمل استثنیٰ کا اعلان کیا گیاہے جو کہ پچھلی حد سے تین گنا ہے۔ ایک لاکھ سے دو لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد پر صرف 5 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔

دو لاکھ سے چار لاکھ ماہانہ آمدن والے افراد پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہو گی۔ چار لاکھ ماہانہ سے زیادہ آمدن والے افراد پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہو گی۔ ٹیکس ریٹ میں کمی سے سب سے زیادہ فائدہ متوسّط اور تنخواہ دار طبقہ کو ہو گا۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز تین گنا بڑھا دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح بیت المال کا بجٹ دس ارب روپے کردیا گیا ہے۔

ملک میں بجلی کے صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کے لئے 150 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر نیا برآمدی پیکج دیا گیا ہے۔ جس کے لئے بجٹ میں 24 ارب روپے مختص کردیئے گئے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے میں کیش ایوارڈ کا اجراء اور اس شعبے پر سیلز ٹیکس 15 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کردیا گیا ہے۔ تمام کھادوں پر ٹیکس کی شرح کم کرکے دو فیصد کردی گئی ہے۔

کھیتوں میں جپسم کی کمی پوری کرنے کے لئے برآمدات پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے‘ اس سے ملکی جپسم کی صنعت کو تقویت ملے گی۔ گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک دیر تک کام کرنے والے ملازمین کے کنوینس الائونس میں 50 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کم آمدن والوں کے لئے 25 لاکھ روپے تک کے مکان کے ٹیکس میں 50 فیصد کمی کی گئی ہے۔ نان فائلر پر 40 لاکھ روپے تک کی جائیداد خریدنے کی حد کو بڑھا کر 50 لاکھ کر دیا ہے۔ ماچس سازی کی صنعت کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔