قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات نے نے نیب کو جی سکس اسلام آباد کی خالی عمارت جلد سے جلد اسٹیٹ آفس کو دینے کی ہدایت کر دی

قائمہ کمیٹی کو نیشنل کنسٹرکشن لمیٹیڈ(قومی تعمیر کا قومی ادارہ)کے فنگشنز اور کارکردگی بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا وفاقی وزارتوں اور ڈویڑنوں کو دفاتر ،وفاقی وزراء ، وزرائے مملکت اور سرکاری ملازمین کو رہائشی مکان الاٹ کرنا ، کمرشل یونٹس کی منیجمنٹ کرنا ، الاٹی سے کرایہ ریکور کرنا ،سرکاری مکانات سے غیر قانونی قابضین کو واگزار کرنا شامل ہے، اسٹیٹ آفیسر کا کمیٹی کو جواب

منگل 22 مئی 2018 18:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2018ء) قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات نے نے نیب کو جی سکس اسلام آباد کی خالی عمارت جلد سے جلد اسٹیٹ آفس کو دینے کی ہدایت کر دی اور کراچی میں 4100 مکانات پر ریٹائرڈ ملازین کے قبضے کے حوالے سے ہدایت کی کہ قانون ، رولز اور عدالتی فیصلوں کے مطابق ان گھروں کے حوالے سے اقدامات کئے جائیںتفصیلات کے مطابق اسلام آبادمیں گزشتہ روز سینٹ قائمہ کمیٹی برائے مکانا ت اور تعمیرات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں اسٹیٹ آفس اور نیشنل کنسٹرکشن لمیٹیڈ(قومی تعمیر کا قومی ادارہ) کے فنکشنز ،بجٹ ، کام کے طریقہ کار اور ان کی کارکردگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ آفسیر عبیدالدین نے قائمہ کمیٹی کو اسٹیٹ آفس کے فنکشنز اور کارکردگی بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی وزارتوں اور ڈویڑنوں کو دفاتر ،وفاقی وزراء ، وزرائے مملکت اور سرکاری ملازمین کو رہائشی مکان الاٹ کرنا ، کمرشل یونٹس کی منیجمنٹ کرنا ، الاٹی سے کرایہ ریکور کرنا اور سرکاری مکانات سے غیر قانونی قابضین کو واگزار کرنا شامل ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کل ملازمین کی تعداد 339 ہے جبکہ 71 خالی پوسٹیں پڑی ہیں۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے تقرریوں پر پابندی ختم ہونے کے دو ماہ کے بعد تقرریاں مکمل کر کے رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 17496 سرکاری مکانات ہیں اور 21910 مزید مکانات کی ضرورت ہے۔ کراچی میں 7882 ، لاہور میں 1934 ،پشاور میں669 اور کوئٹہ میں498 مکانات اسٹیٹ آفس کے دائرہ کار میں ہیں ، جبکہ ملک بھر میں 26724 مکانات کی کمی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ آفس اسلام آباد کے دفتر کا بجٹ 8 کروڑ ، کراچی کا 4 کروڑ ، لاہور کا 66 لاکھ ، پشاور کا 98 لاکھ اور کوٹہ کا 37 لاکھ ہے۔بجٹ کا تین چوتھائی حصہ ملازمین کے اخراجات کی مد میں صرف ہوجاتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ آفس کی کراچی میں 221 دکانیں اور 9 پیڑول پمپ ہیں جبکہ لاہور میں 32 دکانیں اور پشاور میں 20 دکانیں ہیں۔

عبیدالدین نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 2011 سے پہلے سرکاری ملازمین کو صوبدایدی اختیارات کے تحت بھی مکان الاٹ کیے جاتے تھے۔ 2011 کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق مکانوں کی الاٹمنٹ جنرل ویٹنگ لسٹ کے مطابق کی جاتی ہے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جنرل ویٹنگ لسٹ کی رجسٹریشن آن لائن کر دی گئی ہے مالی سال 2016-17 میں1838 نئے ملازمین رجسٹرڈ ہوئے اور 1875 کو مکانات الاٹ کیے گئے۔

اسٹیٹ آفس نے گزشتہ سال اسلام آباد کے تمام سرکاری مکانات کا سروے کروایا جس میں 405 مکانات پر غیر قانونی لوگوں رہائش پذیز تھے۔ جن میں سے 272 مکانوں کو واگزار کر لیا گیا ہے۔ اور ادارے نے 5 سو ملین کرائے کی مد میں ریکوری بھی کی ہے۔قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ تمام سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کیا جارہا ہے اسلام آباد کا سسٹم کمپیوٹر ائزڈ ہو چکا ہے۔

جون 2018تک پورے ملک کے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اکاموڈیشن الیوکیشن رولز2002میں کچھ ترامیم تجاویز کیں ہیں جس کی اسٹبلشمنٹ ڈویڑن نے منظوری دے رکھی ہے۔ وزارت خزانہ اور وزارت قانون نے رائے دینی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت قانون اور وزارت خزانہ کو جلد سے جلد رائے دینے کی سفارش کر دی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ اسٹیٹ آفس کا شہید ملت عمارت میں آٹھویں اور نویں فلور پر دفاتر ہیں ، نیب کے جی سکس فور میں وفاتر خالی پڑے ہیں وہ اسٹیٹ آفس کو ہینڈ اوور کر دیئے جائیں۔

قائمہ کمیٹی نے نیب کو جلد سے جلد عمارت اسٹیٹ آفس کو دینے کی ہدایت کر دی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ اسٹیٹ آفس کے کراچی میں 4100 مکانا ت پر ریٹائرڈ ملازمین نے 2005 سے قبضہ کر رکھا ہے اور اس حوالے سے عدالتوں کے فیصلے بھی موجود ہیں جن میں ان قبضوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔قائمہ کمیٹی ہاوسنگ اینڈ ورکس نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی کہ قانون ، رولز اور عدالتی فیصلوں کے مطابق ان گھروں کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں۔

قائمہ کمیٹی نے اسٹیٹ آفس کی لیز پر دی گئی اثاثہ جات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں۔ قائمہ کمیٹی کو نیشنل کنسٹرکشن لمیٹیڈ(قومی تعمیر کا قومی ادارہ)کے فنگشنز اور کارکردگی بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ1973 میں نیشنل کنسٹرکشن لمیٹیڈکا قیام عمل آیا۔ 1978 میں این سی ایل اور این سی سی پی میں تقسیم کر دیا گیا۔

این سی ایل جو این سی کے نام سے جانی جاتی ہے کلی طور پر حکومت کی تعمیراتی کمپنی ہے۔کمپنی کا ہیڈ آفس اسلام آباد جبکہ علاقائی دفاتر کراچی ، کوئٹہ اور اسلام آباد میں واقع ہیں۔کمپنی کے پاس 14 منصوبے زیر تعمیر ہیں۔ جن میں عمارات ، ریزوائرز، انفراسٹرکچر ، ڈیوویلپمنٹ ، پاکستان اٹامک انرجی کے مخصوص منصوبے اور کوئٹہ واٹر سپلائی کے منصوبے شامل ہیں۔

این ایل سی کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر ہے جس کا چیئرمین سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس ہے۔کمپنی کی2004 تک 199 ملین کے ملکیتی اثاثے ہیں جن میں سے حکومت کا 87 فیصد حصہ ، این ایل سی ملازمین کا 12 فیصد حصہ اور باقی نیشنل بنک پاکستان اور این ٹی کا حصہ ہیں۔این سی نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 1421 ملین کے منصوبے مکمل کیے اور 11706 ملین کے 14 منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ کمپنی نے 74 ملین کا منافع کمایا ہے۔قائمہ کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں سینیٹرز نجمہ حمید ، بہرامندخان ، خانزادہ خان ، سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس ڈاکٹر عمران ،جوائنٹ سیکرٹری عصمت اللہ شاہ ، ایم ڈی این سی ایل انجینئر اطہر نواز ملک ،اسٹیٹ آفسیر عبدالدین اوردیگر حکام نے شرکت کی۔ظفر ملک