داعش افغانستان سے پاکستان کے راستے بی پاؤڈراسمگل کرتی ہے،عالمی گروپ

اسمگلنگ سے زرمبادلہ حاصل کیاجاتاہے،گلوبل وٹنس ایڈوکیسی گروپ/تحقیقات کے لیے افغانستان کا کمیٹی کے قیام کا اعلان

بدھ 23 مئی 2018 17:41

داعش افغانستان سے پاکستان کے راستے بی پاؤڈراسمگل کرتی ہے،عالمی گروپ
کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 مئی2018ء) افغانستان میں دہشت گرد عسکری گروپ داعش اپنی سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے کی غرض سے ہر سال غیر قانونی کان کنی کے ذریعے لاکھوں ڈالر اکھٹے کر رہا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عالمی نگرانی سے متعلق ایک گروپ کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش افغانستان میں غیر قانونی کان کنی سے ٹیلک پاؤڈر حاصل کر رہے جسے پاکستان کے راستے بیرونی ملکوں میں سمگل کر دیا جاتا ہے۔

گروپ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹیلک پاؤڈر کی آخری منزل امریکہ یا یورپ ہوتی ہے، جسے بے بی پاؤڈر، صابن، کاسمیٹک مصنوعات اور کئی صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔گلوبل وٹنس ایڈوکیسی گروپ کی رپورٹ میں افغانستان کی کان کنی کی وزارت کے حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ اس سال مارچ تک تقریباً 5 لاکھ ٹن ٹیلک برآمد کیا گیا۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق افغانستان کی کانوں سے نکالا جانے والا تقریباً سارا ٹیلک پاکستان بھیج دیا گیا، جہاں سے اس کا زیادہ تر حصہ دوبارہ برآمد کر دیا گیا۔

امریکہ ٹیلک کی اپنی ضروریات کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پاکستان سے منگواتا ہے، جب کہ باقی ماندہ حصہ پاکستان سے یورپ چلا جاتا ہے۔گلوبل وٹنس کے ایک ڈائریکٹر نک ڈونووین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکی اور یورپی صارفین یہ مصنوعات خرید کر لاعلمی میں افغانستان کے انتہاپسند گروپوں کی مدد کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیلک کی درآمد اور برآمد پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی سرحد سے ملحق افغان صوبہ ننگرہار میں بڑے پیمانے پر ٹیلک، کرومائیٹ اور سنگ مرمر کے ذخائر موجود ہیں۔ ننگرہار اسمگلنگ کے اہم راستوں پر واقع ہے۔ ان راستوں سے بڑے پیمانے پر منشیات بھی سمگل کی جاتی ہیں۔رپورٹ میں داعش کے ایک عسکری کمانڈر کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا کہناتھا کہ حریف گروپ سے کانوں کا کنٹرول چھیننا ان کی اولین ترجیح ہے۔گلوبل وٹنس گروپ کا کہنا تھا کہ یہ کانیں مافیا کے کنٹرول میں ہیں جنہیں وہ اپنی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر استعمال کر رہے ہیں۔افغانستان کی کان کنی کی وزارت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس مسئلے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے جو اس کے حل کے لیے سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جینس سروسز سے رابطے میں ہے۔