داعش افغانستان میں بے بی پاؤڈر کی مدد سے پنپ رہی ہے،گلوبل وٹنس ایڈوکیسی گروپ

ٹیلکم پائوڈر براستہ پاکستان یورپ، امریکا اسمگل کیاجاتا ہے،معدنیات کی زیادہ تر کانیں طالبان کے قبضے میں ہیں،رپورٹ

بدھ 23 مئی 2018 23:28

جنیوا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 مئی2018ء) عالمی نگرانی میں مرتب کی گئی گلوبل وٹنس ایڈوکیسی گروپ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ داعش کو افغانستان میں بے بی پاؤڈر سے مدد مل رہی ہے۔ٹیلکم پائوڈر کو براستہ پاکستان باہریورپ اور امریکا اسمگل کر دیاجاتا ہے،ٹیلکم پائوڈر بے بی پاؤڈر، صابن، کاسمیٹک مصنوعات اور کئی صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے،معدنیات کی زیادہ تر کانیں طالبان کے پاس ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد عسکری گروپ داعش اپنی سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے کی غرض سے ہر سال غیر قانونی کان کنی کے ذریعے لاکھوں ڈالر اکھٹے کر رہا ہے۔عالمی نگرانی سے متعلق ایک گروپ کی طرف سے منگل کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش افغانستان میں غیر قانونی کان کنی سے ٹیلک پاؤڈر حاصل کر رہے جسے پاکستان کے راستے بیرونی ملکوں میں سمگل کر دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

گروپ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیلک پاؤڈر کی آخری منزل امریکہ یا یورپ ہوتی ہے، جسے بے بی پاؤڈر، صابن، کاسمیٹک مصنوعات اور کئی صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔گلوبل وٹنس ایڈوکیسی گروپ کی رپورٹ میں افغانستان کی کان کنی کی وزارت کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ اس سال مارچ تک تقریباً 5 لاکھ ٹن ٹیلک برآمد کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق افغانستان کی کانوں سے نکالا جانے والا تقریباً سارا ٹیلک پاکستان بھیج دیا گیا، جہاں سے اس کا زیادہ تر حصہ دوبارہ برآمد کر دیا گیا۔

امریکہ ٹیلک کی اپنی ضروریات کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پاکستان سے منگواتا ہے، جب کہ باقی ماندہ حصہ پاکستان سے یورپ چلا جاتا ہے۔گلوبل وٹنس کے ایک ڈائریکٹر نک ڈونووین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی اور یورپی صارفین یہ مصنوعات خرید کر لاعلمی میں افغانستان کے انتہاپسند گروپوں کی مدد کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ٹیلک کی درآمد اور برآمد پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی سرحد سے ملحق افغان صوبہ ننگرہار میں بڑے پیمانے پر ٹیلک، کرومائیٹ اور سنگ مرمر کے ذخائر موجود ہیں۔ ننگرہار اسمگلنگ کے اہم راستوں پر واقع ہے۔ ان راستوں سے بڑے پیمانے پر منشیات بھی سمگل کی جاتی ہیں۔رپورٹ میں داعش کے ایک عسکری کمانڈر کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ حریف گروپ سے کانوں کا کنٹرول چھیننا ان کی اولین ترجیح ہے۔

اس وقت معدنیات کی زیادہ تر کانیں طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ داعش اور طالبان کے درمیان لڑائیوں کی عمومی وجہ کانوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش ہوتی ہے۔گلوبل وٹنس گروپ کا کہنا ہے کہ یہ کانیں مافیا کے کنٹرول میں ہیں جنہیں وہ اپنی سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر استعمال کر رہے ہیں۔غیر قانونی کان کنی اور معدنیات کی افغانستان سے اسمگلنگ کی مالیت کے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہیں، لیکن اندازہ ہے کہ اس سے لاکھوں ڈالر حاصل کیے جا رہے ہیں۔

بظاہر یہ رقم کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوتی، لیکن اگر افغانستان میں مقیم امریکی فوج کے ان تخمینوں پر نظر ڈالی جائے جن میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں داعش کے عسکریت پسندوں کی تعداد 750 سے 2000 کے لگ بھگ ہے، تو لاکھوں ڈالر اس محدود تعداد کے پیش نظر ان کے لیے خطیر رقم ہے۔افغانستان کی کان کنی کی وزارت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اس مسئلے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے جو اس کے حل کے لیے سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جینس سروسز سے رابطے میں ہے۔