Live Updates

قومی اسمبلی ، فاٹا اور پاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل منظور

آئینی ترمیمی بل کے حق میں 229اور مخالفت میں ایک ووٹ پڑا،حکومت کی اتحادی جے یو آئی (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، تحریک انصاف کے رہنما داور خان کنڈی اور فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6جبکہ سینیٹ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں گی،آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے، فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے،بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے،10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا،ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا،بل کا متن آئین کے تحت قومی اسمبلی سے آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد (آج )سینیٹ میں پیش کیا جائیگا، سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے فاٹا اور پاٹا باضابطہ طور پر خیبرپختونخوا میں ضم ہو جائیں گے

جمعرات 24 مئی 2018 19:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 24 مئی2018ء) قومی اسمبلی میں فاٹا اور پاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیا گیا۔ آئینی ترمیمی بل کے حق میں 229اور مخالفت میں ایک ووٹ پڑا۔حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، تحریک انصاف کے رہنما داور خان کنڈی اور فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی اور احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔

بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6جبکہ سینیٹ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں گی،آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے، فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے،بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے،10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا،ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

آئین کے تحت قومی اسمبلی سے آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد آج (جمعہ) کو سینیٹ میں پیش کیا جائیگا ۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط سے فاٹا اور پاٹا باضابطہ طور پر خیبرپختونخوا میں ضم ہو جائیں گے۔جمعرات کو اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا ۔اجلاس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف چوہدری محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم بل پیش کیا۔

حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، تحریک انصاف کے رہنما داور خان کنڈی اور فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے بل کی مخالفت کی ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بل کی کاپیاں بھی پھاڑیں۔سپیکر نے بل کی مخالفت کرنے والے ارکان کو بولنے کی اجازت دی جس پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نعیمہ کشور خان نے کہا کہ اگر ہم کسی چیز کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے ، ہم نے صرف اتنی درخواست کی تھی کہ فاٹا کی عوام سے ایک دفعہ پوچھ لیا جائے کہ وہ خیبرپختونخوا میں انضما م چاہتے ہیں یا الگ صوبہ ۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے فاٹا کو بارود کا ڈھیر بنایا ، آئینی ترمیم منطور کر کے آپ پختونخونوں کا خون کررہے ہیں اور ایوان بالا میں ان کی رکنیت ختم کر رہے ہیں ، ایک طرف جنوبی پنجاب بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی بجائے کے پی کے میں ضم کیا جا رہا ہے ۔ آج جو لوگ پارلیمنٹ کو گالیاں دیتے تھے ، آج پارلیمنٹ کو رونق بخش رہے ہیں ، مالاکنڈ کے لوگوں سے پوچھا نہیں گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ،فاٹا کو آپ بارش سے بچاتے بچاتے پرنالے کے نیچے لا رہے ہیں ۔

بل کی مخالفت کرنے والے فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے کہا کہ آج فاٹا کے حوالے سے سیاہ دن ہے ، ہم نے فاٹا کا انضمام مانگا تھا بلکہ فاٹا ریفارمز مانگی تھی ، فاٹا کی عوام کو پیکج دینے کی بجائے انضمام دینے کیلئے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا، عمران خان نے کہا تھا کہ اقتدار میںآکر جنوبی پنجاب صوبہ بنائوں گا مگر فاٹا کی تو پہلے سے ایک الگ حیثیت ہے ، اس کو بھی کے پی کے میں ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے ۔

تحریک انصاف کے داور خان کنڈی نے کہا کہ میں اس بل کی مخالفت کرتا ہوں ، ہمارا آئین فیڈریشن ہے ، فیڈریشن میں انضمام کا تصور نہیں ،سیاسی جماعتوں کے منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ شامل ہے مگر فاٹا کو کے پی کے میں ضم کر کے ہم فیڈریشن کی مخالفت کر رہے ہیں اور انضمام کی روایت ڈال رہے ہیں ، جو لوگ آج فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کی حمایت کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کیسے بنائیں گے ، آئینی ترمیم سے آرٹیکل247کو ختم کیا جا رہاہے جو صدر کو جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار دیتا ہے ، ایک طرف ہم انتظامی یونٹس کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایک طرف ہم یونٹس کا انضمام کر رہے ہیں ، انضمام کے حوالے سے کے پی کے اور فاٹا کی عوام سے نہیں پوچھا گیا ، فاٹا کو ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے ۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی نسیمہ پانیزئی نے کہا کہ آج وہ لوگ فاٹا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں جن کا فاٹا سے کوئی تعلق نہیں ، آج فاٹا کے حوالے سے سیاہ دن ہے ، فاٹا کی عوام سے زیادتی کی جا رہی ہے جس سے پختونوں کے احساس محرومی انتقام میں بدل جائیگی ۔ جے یوآئی کی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ آج ایوان میں ارکان کو پکڑ پکڑ کر لایا جا رہا ہے تا کہ انضمام کیا جا سکے ، فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے ،قبائلی لوگ پاکستان کے محافظ ہیں ، انضمام کر کے ڈیورنڈ لائن کو کیوں متنازعہ بنایا جا رہا ہے ۔

جو لوگ ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجتے تھے وہ آج کیسے کسی کے اشارے پر ایوان میں آئے ہیں ۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی عبدلقہار ودان نے کہا کہ سیاسی مخالفین جو ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے تھے ،آج ایک پیج پر ہیں ، ان کے پیچھے کون ہے جو ان کو ایک پیج پر لایا ہے ، یہ ہمارے لیے سوالیہ نشان ہے ۔جے یو آئی(ف)کے رکن اسمبلی جمال الدین نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین سے فاٹا کا نام آج نکل رہا ہے، فاٹا کے عوام سے رائے لئے بغیر نظام مسلط کریں گے تو پریشانی ہوگی۔

اس موقع پر سپیکر ایاز صادق نے 21ویں آئینی ترمیم بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک پر رائے شماری کرائی جس کے حق میں 229جبکہ مخالفت میں 11ووٹ پڑے ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، تحریک انصاف کے رہنما داور خان کنڈی اور فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے تحریک کی مخالفت میں ووٹ دیا ، آئینی ترمیم بل پیش کرنے کی تحریک منظوری کے بعد سپیکر نے بل کی شق وار منظوری کروائی ۔

آئینی ترمیمی بل کی شق 2کے حق میں 229اور مخالفت میں 3،شق 3کے حق میں 229جبکہ مخالفت میں 2،بل کی شق 4کے حق میں 229جبکہ مخالفت میں 2،شق5 کے حق میں 228جبکہ مخالفت میں 2، شق 6کے حق میں 230جبکہ مخالفت میں 2، شق7کے حق میں 230جبکہ مخالفت میں 1، شق8کے حق میں 231جبکہ مخالفت میں 1، شق 9کے حق میں 231جبکہ مخالفت میں 1، بل کی شق ون اور ٹائٹل کے حق میں 230اورمخالفت میں ایک ووٹ پڑا ۔

بل کی شق وار منظوری کے دوران جے یوآئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا ۔ بل کی شق وار منظوری کے بعد سپیکر ایاز صادق نے 31ویں آئینی ترمیم کی ووٹنگ کیلئے طریقہ کار کا اعلان کیا اور بل کے حق میں ارکان کو اپنی دائیں جانب موجود گیلری جبکہ بل کی مخالفت میں ارکان کو اپنی بائیں جانب موجود گیلری میں جانے کی ہدایت کی ۔

آئینی ترمیم کی ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد سپیکر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ 31ویں آئینی ترمیم کے حق میں 229 جبکہ مخالفت میں ایک رکن نے ووٹ دیا ،آئین کے تحت دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کر لی گئی ۔31ویں آئینی ترمیم کے موقع پر حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں غیر حاضر رہے۔قبل ازیں قومی اسمبلی میں صورت حال اس وقت دلچسپ ہوئی جب قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ایوان میں حکومتی ارکان اور وزرا کی تعداد کو کم محسوس کیا۔

جس پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے خورشید شاہ کو کہا کہ یہ حکومت یا اپوزیشن کا نہیں سب کا بل ہے، ہمیں ڈیڑھ سوسال کی تاریخ بدلنی ہے، آدھا گھنٹہ اورانتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں، ارکان پورے ہوجائیں تو بل پیش کر دیں گے، دوکے سوا باقی تمام وزرا یہاں موجود ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ یہ تاریخی بل ہے پوری قوم کی نظریں اس پرہیں، فاٹا کے لوگوں کو وہی حقوق ملیں گے جو باقی پاکستانیوں کو ملے ہیں ، ہم توایک گھنٹہ انتظار کرنے کو تیار ہیں، وزرا کھڑے ہو جائیں دیکھیں کیا صرف دو کم ہیں۔

واضح رہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے حق میں ہیں جب کہ حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علما اسلام(ف)اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس ترمیمی بل کی مخالفت کررہے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ بدلنی ہے، آدھا گھنٹہ اور انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ ہم تو ایک گھنٹہ انتظار کرنے کو تیار ہیں۔

فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے۔بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6جبکہ سینیٹ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں گی،آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے، فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے،بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے،10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا،ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔

بل کے تحت پانچ سال کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستیں 12سے کم کر کے 6کر دی جائیں گی جبکہ آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے ۔قومی اسمبلی سے آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد آج (جمعہ) کو سینیٹ میں پیش کیا جائیگا ۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط سے فاٹا اور پاٹا باضابطہ طور پر خیبرپختونخوا میں ضم ہو جائیں گے ۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات