سینٹ نے بھی پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ایف کی شدید مخالفت کے باوجود فاٹا کو 31 ویں دستور (ترمیمی) بل 2018ء کی کثرت رائے سے منظوری دیدی
71 ارکان نے بل کے حق ،ْ 5 نے مخالفت میں رائے دی ،ْ چیئرمین نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی قبائلی علاقوں کی طویل جدوجہد رہی ہے اور آبادی پر ظلم و بربریت کی بھی ایک داستان ہے ،ْ سینیٹر رضا ربانی
جمعہ 25 مئی 2018 17:02
(جاری ہے)
فاٹا کے عوام گرینڈ جرگوں کے ذریعے فیصلے کرتے تھے۔
وہاں جرائم بے نام تھے۔ ریپ، اغواء برائے تاوان جیسے جرائم کا وجود نہ تھا۔ میران شاہ، میر علی میں ہزاروں دکانوں کو ڈھیر کر دیا گیا۔ فاٹا کے عوام دہشت گرد نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 247 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کے تحت صرف صدر فاٹا کے حوالے سے قانون تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام انضمام نہیں چاہتے، اس ایوان میں ریکارڈ پر یہ بات ہے کہ وزیر سیفران نے کہا کہ فاٹا کے عوام انضمام نہیں چاہتے۔ کل جو ہوگا اس کی ذمہ دار یہ جماعتیں ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی سینیٹر عثمان کاکڑ اور ان کی پارٹی کے ارکان ایوان سے واک آئوٹ کر گئے تاہم بعد ازاں وہ ایوان میں واپس آ گئے اور بل پر رائے شماری میں حصہ لیا۔ بل پر مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے اظہار خیال کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بل کی مخالفت کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے بل کی حمایت کی۔ چیئرمین نے بل منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا ،ْ 71 ارکان نے بل کے حق میں جبکہ 5 نے مخالفت میں رائے دی جس کے بعد چیئرمین نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی۔ اس کے بعد بل پر حتمی رائے شماری کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ چیئرمین نے سینیٹر سعدیہ عباسی کو علالت کے باعث سب سے پہلے دستخط کرنے کے لئے لابی میں جانے کی اجازت دی۔ ارکان نے باری باری رول آف ممبرز پر دستخط کئے جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اعلان کیا کہ 71 ارکان نے بل کے حق میں جبکہ 5 ارکان نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ اس طرح سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے بل کی منظوری دے دی ہے تاہم جے یو آئی نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا ۔بل پیش ہونے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کی طویل جدوجہد رہی ہے اور آبادی پر ظلم و بربریت کی بھی ایک داستان ہے۔ قبائلی علاقوں کے لوگ دہشت گردی کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔ انہوں نے قربانیاں دیں اور ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ فاٹا کے حوالے سے اصلاحات کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا اور باقاعدہ کمیٹی قائم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید فائونڈیشن نے بھی اس حوالے سے بڑا کام کیا ہے ،ْانہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ فاٹا کے حوالے سے آئینی ترمیم کا فیصلہ کرتی مگر یہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے بعد عمل میں لایا گیا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہماری جماعت نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہماری جدوجہد کامیاب ہوئی ہے۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ فاٹا کو حقوق ملنا ایک تاریخی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہر جمہوریت پسند کارکن نے فاٹا کے معاملہ پر جدوجہد کی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو جو مراعات حاصل ہیں ان کو واپس نہ لیا جائے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ یہ دن بڑی خوشی کا دن ہے، ایف سی آر کا خاتمہ بڑا اقدام ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ آج مبارک دن ہے، اختلاف کرنے والے ارکان کو اختلاف کا حق ہے۔ یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی کسی اشارے پر ایسا کر رہی ہے، اس پر مجھے اعتراض ہے۔ ایف سی آر کے خاتمے کے لئے ہم برسوں سے بات کر رہے ہیں۔ پی پی پی کی حکومت نے اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ فاٹا کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ فاٹا کی ایک آئینی حیثیت تھی جس کو ہم تبدیل کرنے جا رہے ہیں،دیکھنا ہے کہ کیا ایسا کرتے وقت ہم ان کی رائے لے رہے ہیں یا نہیں الگ صوبے کی صورت میں انہیں فائدہ زیادہ ہوتا۔ واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔اس کے علاوہ ایف سی آر قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے ،ْفاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محصولات سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے ،ْسینٹ میں فاٹا کی 8 نشستیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی ،ْاسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔مزید اہم خبریں
-
پاکستان میں مہنگائی تیزی سے کم ہو کر کم ترین سطح پر آگئی ہے،گورنر سٹیٹ بینک
-
پنجاب ،ضمنی انتخابات کے پیش نظر 10اضلاع میں دفعہ 144نافذ
-
کراچی،غیر ملکی شہریوں کی گاڑی پر خود کش حملہ،2دہشت گرد ہلاک،2سیکورٹی گارڈ سمیت3افراد زخمی
-
بھارت کے قومی انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ جاری
-
بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے باعث ڈیم ٹوٹ گیا
-
پولٹری:کارپوریٹ سیکٹر میں ملک کی دوسری جبکہ روزانہ کی بنیاد پر کیش فلو کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹری تنازعات کا شکارکیوں؟
-
ملکی زرمبادلہ ذخائر میں مزید اضافہ ہو گیا
-
پاکستان میں سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کے لئے بڑی صلاحیت موجود ہے.عطاءتارڑ
-
وزیراعظم نے بجلی کے ترسیلی نظام اور تقسیم کار کمپنیوں کی بہتری کیلئے ترجیحی پلان مرتب کرکے آئندہ ہفتے پیش کرنے کی ہدایت کردی
-
بین الاقوامی سرمایہ کاری کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات لی جائیں.شہباز شریف
-
اسرائیل پر حملے کا جواب ‘امریکا اور برطانیہ نے ایران پر نئی پابندیاں عائدکردیں
-
جماعت اسلامی فارم 47 کے تحت مسلط حکومت کے خلاف بڑی تحریک برپا کرے گی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.