سینٹ نے بھی پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ایف کی شدید مخالفت کے باوجود فاٹا کو 31 ویں دستور (ترمیمی) بل 2018ء کی کثرت رائے سے منظوری دیدی

71 ارکان نے بل کے حق ،ْ 5 نے مخالفت میں رائے دی ،ْ چیئرمین نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی قبائلی علاقوں کی طویل جدوجہد رہی ہے اور آبادی پر ظلم و بربریت کی بھی ایک داستان ہے ،ْ سینیٹر رضا ربانی

جمعہ 25 مئی 2018 17:02

سینٹ نے بھی پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ایف کی شدید مخالفت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مئی2018ء) قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے بھی پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ایف کی شدید مخالفت کے باوجود فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے 31 ویں دستور (ترمیمی) بل 2018ء کی کثرت رائے سے منظوری دیدی ،ْ بل صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون بن جائیگا ۔ جمعہ کو اجلاس کے دوران وزیر قانون چوہدری محمود بشیر ورک نے دستور (ترمیمی) بل 2018ء کو قومی اسمبلی سے منظور کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔

اس دور ان پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ وہ اور دیگر ارکان اس پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین نے انہیں بل کے حوالے سے اظہار خیال کی اجازت دے دی جس کے بعد انہوں نے کہا کہ فاٹا کی ایک تاریخ ہے، واحد ہماری جماعت کے منشور میں 40 سال سے ہے کہ ایف سی آر کا خاتمہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

فاٹا کے عوام گرینڈ جرگوں کے ذریعے فیصلے کرتے تھے۔

وہاں جرائم بے نام تھے۔ ریپ، اغواء برائے تاوان جیسے جرائم کا وجود نہ تھا۔ میران شاہ، میر علی میں ہزاروں دکانوں کو ڈھیر کر دیا گیا۔ فاٹا کے عوام دہشت گرد نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 247 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کے تحت صرف صدر فاٹا کے حوالے سے قانون تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام انضمام نہیں چاہتے، اس ایوان میں ریکارڈ پر یہ بات ہے کہ وزیر سیفران نے کہا کہ فاٹا کے عوام انضمام نہیں چاہتے۔

کل جو ہوگا اس کی ذمہ دار یہ جماعتیں ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی سینیٹر عثمان کاکڑ اور ان کی پارٹی کے ارکان ایوان سے واک آئوٹ کر گئے تاہم بعد ازاں وہ ایوان میں واپس آ گئے اور بل پر رائے شماری میں حصہ لیا۔ بل پر مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے اظہار خیال کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بل کی مخالفت کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے بل کی حمایت کی۔

چیئرمین نے بل منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا ،ْ 71 ارکان نے بل کے حق میں جبکہ 5 نے مخالفت میں رائے دی جس کے بعد چیئرمین نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی۔ اس کے بعد بل پر حتمی رائے شماری کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ چیئرمین نے سینیٹر سعدیہ عباسی کو علالت کے باعث سب سے پہلے دستخط کرنے کے لئے لابی میں جانے کی اجازت دی۔ ارکان نے باری باری رول آف ممبرز پر دستخط کئے جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اعلان کیا کہ 71 ارکان نے بل کے حق میں جبکہ 5 ارکان نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔

اس طرح سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے بل کی منظوری دے دی ہے تاہم جے یو آئی نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا ۔بل پیش ہونے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کی طویل جدوجہد رہی ہے اور آبادی پر ظلم و بربریت کی بھی ایک داستان ہے۔ قبائلی علاقوں کے لوگ دہشت گردی کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔ انہوں نے قربانیاں دیں اور ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دیا۔

فاٹا کے حوالے سے اصلاحات کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا اور باقاعدہ کمیٹی قائم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید فائونڈیشن نے بھی اس حوالے سے بڑا کام کیا ہے ،ْانہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ فاٹا کے حوالے سے آئینی ترمیم کا فیصلہ کرتی مگر یہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے بعد عمل میں لایا گیا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہماری جماعت نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہماری جدوجہد کامیاب ہوئی ہے۔

سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ فاٹا کو حقوق ملنا ایک تاریخی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہر جمہوریت پسند کارکن نے فاٹا کے معاملہ پر جدوجہد کی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو جو مراعات حاصل ہیں ان کو واپس نہ لیا جائے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ یہ دن بڑی خوشی کا دن ہے، ایف سی آر کا خاتمہ بڑا اقدام ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ آج مبارک دن ہے، اختلاف کرنے والے ارکان کو اختلاف کا حق ہے۔

یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی کسی اشارے پر ایسا کر رہی ہے، اس پر مجھے اعتراض ہے۔ ایف سی آر کے خاتمے کے لئے ہم برسوں سے بات کر رہے ہیں۔ پی پی پی کی حکومت نے اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ فاٹا کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ فاٹا کی ایک آئینی حیثیت تھی جس کو ہم تبدیل کرنے جا رہے ہیں،دیکھنا ہے کہ کیا ایسا کرتے وقت ہم ان کی رائے لے رہے ہیں یا نہیں الگ صوبے کی صورت میں انہیں فائدہ زیادہ ہوتا۔

واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔اس کے علاوہ ایف سی آر قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے ،ْفاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محصولات سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے ،ْسینٹ میں فاٹا کی 8 نشستیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی ،ْاسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔

بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔