کنزیومر اسوسی ایشن آف پاکستان کی مہنگے داموں فروخت ہونے والے پھلوں کی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مہم کامیابی سے جاری

جمعہ 25 مئی 2018 21:55

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مئی2018ء) مہنگے داموں فروخت ہونے والے پھلوں اور فروٹ کی بائیکاٹ مہم صارفین کے تعاون سے کامیابی سے ہمکنار ہوئی سوشل میڈیا کے ذریعے کنزیومرایسوسی ایشن آف پاکستان نے صارفین سے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں مہنگے پھل و فروٹ کی خریداری نہ کرنے کی اپیل کی جسکا صارفین نے بھرپور ساتھ دیا جسکے نتیجے میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی حسرتوں پر پانی پھر گیا صارفین کی بہت کم تعداد نے مارکیٹوں کا رخ کیا یہ بات کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چئیرمین کوکب اقبال نے کیپ کے دفتر میں مہنگے پھل و فروٹ کی بائیکاٹ مہم کا جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال رمضان المبارک کے مہینہ میں سے پہلے ہی منافع خور اور ذخیرہ اندوز پھل و فروٹ سمیت اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ ، ناجائز منافع خوری کے زریعے پورے سال کی کمائی کر کے اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

مسلمان تاجر روں کی تعداد 95 فیصد ہے جبکہ 5 فیصد تاجر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے رمضان المبارک کو منافع خور تاجرروں نے کمائی کا مہینہ بنا لیا ہے وہ عبادات کرنے کے ساتھ ساتھ نا جائز منافع خوری کی طرف راغب ہوتے ہیں انھیں یہ احساس بھی نہیں کہ پورے سال صارفین کو لوٹنے کے بعد اس مبارک مہینے میں صارفین کو جائز منافع کے ساتھ اپنی اشیا فروخت کریں جبکہ پوری دنیا میں اس بابرکت مہینے میں صارفین کو بے شمار رعایت کے ساتھ چیزیں فروخت کی جاتی ہیں تاکہ ہر چھوٹا بڑا اپنی ضرورتِ زندگی کا سامان بہ آسانی قوتِ خرید کے مطابق خرید سکے اس کے برعکس رمضان المبارک میں من مانی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں ۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہنگائی روکنے کے لئے دعوے کرتی ضرور نظر آتی ہیں مگر منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف عملی طور پر کوئی اقدامات نظر نہیں آتے چند ایک منافع خوروں کا چالان یا جیل بھیجنے کی خبر اخبارات کا زینہ ضرور بنتی ہے کہ گراں فروشوں کے خلاف کاروائی ہوئی اور جرمانہ کی رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرادی جاتی ہے جس سے صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔

کوکب اقبال نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ منافع خوروں پر کئے گئے جرمانے سے وصول ہونی والی رقم حکومت کا خزانہ بھرنے کے بجائے اس سے مارکیٹوں میں کنزیومر فسلٹیشن سینٹر کنزیومر کمپلین سینٹر بنائیں جائیں تاکہ صارفین اپنی شکایات موقع پر موجود سینٹرزمیں کراسکیں ۔ انہوں نے کہا کہ گراں فروشی کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے صارف ہی وہ قوت ہے جو اپنے اتحاد سے مہنگائی کو قابو کر سکتا ہے جس کا ثبوت کنزیومر اسوسی ایشن کے حا لیہ بائیکاٹ مہم کا نتیجہ ہے جو کیلا 120 سے 180 روپے تک فروخت ہو رہا تھا اب وہ 90 روپے سے 100 روپے فروخت ہو رہا ہے خربوزہ کا ریٹ جو رمضان المبارک کے پہلے دن 80 روپے سے 100 روپے فروخت ہو رہا تھا اب 50 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے اسی طرح دوسرے پھل و فروٹ کی قیمتوں میں 30سے 40 فیصد واضع کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب لوگوں کا فوکس صرف اشیا خوردونوش کی قیمتوں پر ہوتا ہے جبکہ عید کی خریداری بھی ہر گھر کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ بچوں کے کپڑوں سے لیکر جوتوں سمیت ہر اشیا کی قیمتوں میں 100 فیصد زائد اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ درزی کی بھی چاندی ہو گئی ہے خواتین کے لون کے ملبوسات جو چند سال پہلے 500 روپے سی1000 روپے میں باآسانی دستیاب تھے اب انکو مختلف برانڈ کا نام دے کر 5000 روپے سے 15000 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ کچھ برانڈ اپنی چیزوں کو فروخت کرنے کیلئے 70% Upto کا بورڈ آویزاں کرتے ہیں جس سے انکی نہ فروخت ہونے والی اشیا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی ہیں۔

غرض یہ کہ منافع خور تاجر ہر سطح پر صارفین کو لوٹ رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ صارفین اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کریں اور حکومتی ادارے صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جیساکہ ترقی یافتہ مما لک میں صارفین کو حقوق حاصل ہیں۔