چیئرمین ایس ای سی پی کے عہدے پرجونیئرکمشنرکا تقررعدالت میں چیلنج

جمعہ 25 مئی 2018 23:11

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 مئی2018ء) وفاقی حکومت کی جانب سینسیکورٹیزایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایک جونیئرکمشنر شوکت حسینننکی بطور چیئرمین ایس ای سی پی تعیناتی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے کہا ہے کہنننوزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے ارکان نے طاہر محمود کو 9مئی کو چیئرمین ایس ای سی پی تعینات کرنے کی منظوری دیننگئی تھیننلیکننننمسلم لیگ ن کی بااثر شخصیت کی مداخلت پر ایک روز بعدننہی طاہر محمود کی تعیناتیننکی منظور ی کوننننوفاقی کابینہ سے ہی منسوخ کروا کرننایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والیننایک جونیئر کمشنر شوکت حسین کو چیئرمین ایس ای سی پی تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

عدالت میں دائر درخواست میںننوزیراعظمنپاکستان ،نننوزات خزانہ ،نننچیئرمین ایس ای سی پینن، وفاقی سیکٹری قانون اور دیگر کو فریق بناتے ہوئیننشوکت حسین کی تقرری کو غیر قانونی قراردیتے ہوئیننمنسوخ کرنے کی درخواست کی گئیننہے۔

(جاری ہے)

ننندرخواست گزارننمنیر احمد نے درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ حکمران جماعت اور شریف خاندان کے غیرقانونی کاروبار کو تحفظ دینے کیلئے شوکت حسین کو چیئرمین ایس ای سی پی تعینات کیا گیا۔

ننشوکت حسین ایس ای سی پی کے 9ایگزیکٹو ڈائریکٹرز میں سے جونیئرترین ای ڈی ہیں۔ شوکت حسین ایس ای سی پی میں اکتوبر 2017 سے قبل کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نہیں رہے۔ شوکت حسین کو 15جنوری 2018کو ڈائریکٹر سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ،مارچ 2018میں کمشنر اور 11مئی کو چیئرمین ایس ای سی پی تعینات کر دیا گیا۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ شریف خاندان کی شوگر ملز میں منی لانڈرنگ کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ پر ایف آئی اے کے ملزم ظفرحجازی کیخلاف کمشنر طاہر محمود اہم گواہ ہیں۔

وفاقی حکومت نے ملک کے انتہائی اہم کارپوریٹ ریگولیٹر کو اپنے مقاصد کیلئے سیاسی میدان بنا دیا ہے۔ وزیراعظم اور وزارت خزانہ وجوہات بتائیں کہ سینئرترین کمشنر طاہر محمود کی وفاقی کابینہ اور وزیراعظم سے منظوری کے باوجود گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے ایک روز بعد ہیننطاہر محمود کی تعیناتی کی منظوری منسوخ کر کے راتوں رات شوکت حسین کو چیئرمین ایس ای سی پی کیوں تعینات کیا گیا حکومت کی مدت ختم ہونے سے 18روز قبل اہم ترین عہدے پر تقرری کیلئے عجلت کیوں کی گئی وزیراعظم اور وزارت خزانہ کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 90اور91اور قانون کی خلاف ورزی ہے ،وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی جانب سے وزارت سمری میں پہلے نمبر پرکمشنر ظفرعبدا?، دوسرے نمبر طاہر محمود، تیسرے نمبر شوکت علی اور چوتھے پر شوزب علی کا نام تجویز کیا گیاتھا۔

وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ ظفرعبدا? اگست 2018میں ریٹائر ہوجائیں گے جس کے بعد طاہر محمود چیئرمین کیلئے موزوں ترین امیدوار ہیں۔ندرخواست گزار کے مطابق وزارت خزانہ کے ریکارڈ میں واضح ہے کہ وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم نے پہلے طاہر محمود کی تعیناتی کی منظوری دی جیسے بعد ازاںنننمسلم لیگ ن کی اہم شخصیت کیننکابینہ پر اثر انداز ہونے پرننطاہر محمود کی تعیناتی منسوخ کی گئیننچونکہننطاہر محمود رمضان شوکر مل کے ریکارڈ کی ٹمپرنگ کے کیس میں ظفر حجازی کے خلاف گواہ ہیں۔

اور اس وجہ سے اسحاق ڈار جو کہ ظفر حجازی کے بہت قریب ہیں طاہر محمود کو پسند نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہطاہر محمود کی تعیناتی شریف خاندان اور حکمران جماعت کے دیگر لوگوں کیلئے مشکلات کا باعث بنے گی۔نناسی وجہ سے وزیراعظم نے دفتری اوقات ختم ہونے کے باوجود وزارت خزانہ کو ہدایت جاری کرکے طاہر محمود کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے منع کرتے ہوئے تقرری کے احکامات منسو خ کرائے اور اگلے ہی روز نئی سمری تیار کرا کے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلائے بغیر کابینہ ارکان کو انکے دفاتر اور گھروں میں سمری بھیج کر منظوری حاصل کی تاکہ شوکت حسین کی تقرری کو یقینی بنایا۔نندرخواست گزار نے شوکت حسیب کی تعیناتی کو منسوخ کرنینکی درخواست کی ہے۔