10ماہ کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں میں خواتین کیخلاف جرائم کے 5660واقعات رپورٹ ہوئے ہیں،پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق

اتوار 27 مئی 2018 17:10

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مئی2018ء) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے ترجمان آئی اے رحمان نے کہاکہ 2017میں دہشتگردی کے نتیجے میں ہونیوالے ہلاکتوں میں تو کمی ضروری آئی ہے مگر مذہبی اقلیتوں اور قانون نافذ کرنیوالے جیسے اداروں جیسے اسان اہداف پر تشدد میں اضافہ ہواہے ،سال کے پہلے 10ماہ کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں میں خواتین کیخلاف جرائم کے 5660واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ،انہوں نے یہ بات اتوار کے روز کوئٹہ پریس کلب میں 2017میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور اہم نکات کے بارے میں پریس کانفرنس کے دوران بتائی ،اس موقع پر طاہر حسین ایڈوکیٹ ،حبیب طاہر خان ایڈوکیٹ ،میر ظہور شاہوانی ایڈوکیٹ ،محترمہ منورہ بیگم اور دیگر کمیشن کے ارکان بھی موجود تھے ،آئی اے رحمان نے کہاکہ وفاقی پارلیمان نے 2017میں کل 34قوانین بنائے یہ تعداد 2016میں بنائے گئے قوانین سے کم ہے جبکہ 51قوانین منظور ہوئے تھے ،پاکستان نے موسمی تبدیلی ایکٹ اوربچوں کے حقوق پر قومی کمیشن ایکٹ کے نام سے دو وفاقی قوانین منظور کئے تاکہ عالمی معاہدے کے تحت ملک پر عائد ذمہ داریوں کو پورا کیا جاسکے ،جن کی پاکستان نے توسیع کر رکھی ہے ،انہوں نے کہ2017کے دوران ملک کی عدالتوں میں 333,103مقدمات زیر التواء تھے ،رواں برس سپریم کورٹ کا سب سے بڑا اور اہم فیصلہ وہ تھا جس میں اس نے ملک کے وزیراعظم کو صادق اور امین نہ ہونے آئین کے دفعہ 63اور63کے تحت نااہل قرار دیا تھا ،وکیلوں او رججوں کے درمیان گشیدگی میں شدت آئی ،23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو مزید دو برس کیلئے وسعت دی گئی ،پہلی مرتبہ 2017کی مردم شماری میں خواجہ سرائوں یا عورتوں کی خصوصیات رکھنے والی خواجہ سراہ کو بھی شامل کیا گیا ،اور حکومت نے خواجہ سرائوں کو انکے شناخت کے مطابق پاسپورٹ جاری کئے ،انہوں نے کہاکہ نومبر 2017تک پاکستانی جیلوں میں 82,591قیدی تھے ،پنجاب کی جیلوں میں 50,289قیدی تھے جبکہ گنجائش 32,235قیدیوں کی تھی ،سندھ کی جیلوں میں 19,094قیدی تھی جبکہ گنجائش 12,613کی تھی ،خیبر پختونخوا کی جیلوں میں 10,811قیدی تھے جبکہ گنجائش 8395قیدیوں کی تھی او ربلوچستان کی جیلوں میں 2,397قیدی تھے جبکہ گنجائش 2,585قیدیوں کی تھی ،خواتین قیدیوں کی کل تعداد 1,442تھی پنجاب میں 959،سندھ میں 214،خیبر پختونخوا میں 247جبکہ بلوچستان کے جیلوں میں 22خواتین تھی ،پاکستان عدالتوں نے 253لوگوں کو سزائے موت سنائی جن میں پانچ خواتین شامل تھیں ،ان لوگوں کو 197میں مقدمات میں سزا سنائی گئی تھیں ،انہوں نے کہاکہ 2017میں 63لوگوں کو پھانسی لگائی گئی جن میں سے 43لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزاسنائی گئی تھیں ،انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگیوں کو 2017میں 868کیس موصول ہوئے ہیں جن میں سے کمیشن نے 555کیس نمٹائے ہیں ،انہوں نے کہاکہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں سفر کے حوالے سے دوسرا ناپسندیدہ ترین پاسپورٹ تھا او رپاکستانیوں کو صرف چھ ممالک تک ویزے کے بغیر رسائی حاصل تھی ،انہوں نے کہاکہ نومبرمیں فیض آباد اسلام آباد میں چند سو مظاہرین نے اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک دارالحکومت اور فوجی ہیڈکوارٹرز کے شہروں کو یر غمال بنایا رکھا مذہبی اقلیتوں کیخلاف تشدد میں کمی نہ آسکی اور مسیحوں ،احمدیوں ،ہزارہ ،ہندئو اور سکھ سمیت تمام اقلیتوں کو حملوں کا سامنا کرنا کرتی رہی ،انہوں نے کہاکہ صحافیوں اور بلاگرز کو بدستور دھمکیوں اور حملوں و اغواء کاریوں کا سامنا رہا ،ذرائع ابلاغ کے ادارے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے دفاتر اور پریس کلبز حملوں کی زد میں رہے ،انہوں نے کہاکہ پرامن احتجاج کے حق کو محدود کرنے کیلئے دفعہ 143کا بے جا استعمال کیا گیا ،عالمی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن (آئی ٹی یو سی ) کے حقوق کے عالمی گوشوارے 2017کے مطابق پاکستان کو شمار کام کار کے حالات کے حوالے سے سب سے خطرناک ممالک ہیں ،عالمی بین کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ10لاکھ ملین رہائشی یونٹوں کی کمی ہے اور خاص طورپر شہری علاقوں میں اس کمی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ،پاکستان شدید خطرات سے دوچار ہیں ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جو موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ غیر محفوظ تصور کئے جاتے ہیں ،پاکستان دنیا کے ان ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پانی کا استعمال سب سے زیادہ ہیں اورپاکستان ریسرچ کونسل برائے آبی ذرائع نے حالیہ دنوں ایک سخت انتباء جاری کیاہے کہ2025تک ملک میں پانی مکمل طورپر ختم ہوسکتا ہے ،اس کے باوجود پاکستان کے پاس پانی سے متعلق ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ جس سے جامع منصوبہ بندی اور عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے ،2002میں ایک پالیسی تشکیل دے دی گئی لیکن اسکی آج تک منظوری نہیں کی جاسکی ،ایک سرکاری اندازے کے مطابق پاکستان میں افغان شہریوں کی تعداد 25لاکھ سے زیادہ ہیں جن میں 14لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین شامل ہیں ،ملک میں کم سے کم 10لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہے ،یو این ایچ سی آر کے مطابق سال کے آخر تک 25ہزار سے زیادہ مہاجرین افغانستا ن واپس گئے یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں افغانستان واپس جانیوالے مہاجرین کی تعداد میں ایک بہت بڑی کمی کو ظاہر کرتی ہے ،فروری 2017میں وفاقی حکومت نے ایک پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت افغان مہاجرین کے قیام میں 31دسمبر تک توسیع کردی گئی بعد ازاں اس مہلت میں تیس دن کا اضافہ کرکے اسے جنوری 2018تک بڑھا دیا گیا ،2017میں پاکستان میں موجودہ افغان شہریوں کو افغانستان اور پاکستان کے بگھڑتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ،بنگلہ دیشن میں محصور اڑھائی لاکھ پاکستانیوں کی تکالیف کے ازالے کیلئے کوئی پیش نہیں کی گئی۔