دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم اے پی ڈی پی کا سرینگر میں خاموش احتجاجی دھرنا

بھارت کی انسانی حقو ق کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیپلز لائرز کے کارکن بھی اس موقع پر موجودتھے

پیر 28 مئی 2018 18:49

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2018ء) مقبوضہ کشمیرمیںدوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم اے پی ڈی پی نے اپنے پیاروں کے بارے میں معلومات کی فراہمی ،دوران حراست گمشدگیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندانوںکوفوری انصاف کی فراہمی کے مطالبات کے حق میں انسانی حقوق کی غیر ریاستی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیپلز لائرز کے ہمراہ پریس کالونی سرینگر میں خاموشی احتجاجی دھرنا دیا ۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق عالمی سطح پر لاپتہ ہونیوالے لوگوںکی یاد میں منائے جانیوالے ہفتے کے موقع پر کئے گئے مظاہرے کے دوران احتجاجی مظاہرین جن میں خواتین کی بڑی تعداد مجوود تھی نے اپنے پیاروںکی تصاویر کے علاوہ بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انکی جلد بازیابی اور متاثرہ خاندانوںکو انصاف کی فراہمی کے مطالبات کے علاوہ لاپتہ افراد کے نام درج تھے ۔

(جاری ہے)

مظاہرین نے اپنے پیاروں کی گھروں کو واپسی تک یاانکے بارے میں حقائق منظر عام پر لانے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔ اس موقع پر بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیپلز لائرز کے کارکنوںکی بڑی تعداد بھی موجودتھی جنہوںنے گزشتہ3 دہائیوں کے دوران بھارتی فورسز کی طرف سے دوران حراست جبری طورپر لاپتہ کئے گئے کشمیریوںکی جلد باز یابی کامطالبہ کیا ۔

دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے اہلخانہ نے اس موقع پر کہاکہ دنیا بھر میں مئی کے آخری ہفتہ میں گمشدہ افراد کی یاد میں یادگاری ہفتہ منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے جہاں لواحقین کو اپنے پیاروںکو یاد کرنے کا موقعہ ملتا ہے وہی انکے کنبوں کی جدوجہد کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔اے پی ڈی پی کی ترجمان نے اس موقع پر اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی ،ان جبری گمشدگیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندانوںکوفوری انصاف کی فراہمی کے مطالبات دوہراے ۔ انہوںنے کہاکہ انسانی حقوق کے مقامی کمیشن کی طرف سے پے در پے سفارشات کے باوجود7ہزار گمنام اور غیر شناخت شدہ قبروں میں دفن میتوںکی فورینزک جانچ ابھی تک نہیں کی گئی ہے اور اس سلسلے میں بھارت اور کٹھ پتلی انتظامیہ سنجیدہ نہیں ہیں ۔