قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی ترقیات و اصلاحات کا سی پیک پر حکومتی یقین دہانیوں پر تحفظات کا اظہار، تفصیلی بریفنگ کا مطالبہ

سی پیک میں صوبہ خیبر پختون خواہ اور صوبہ بلوچستان کے لئے کچھ نہیں ، سینیٹر مشاہد حسین کی کمیٹی سفارشات مسترد کرتے ہیں انہوں نے مغربی روٹس کے حوالے سے کچھ نہیں کیا،کمیٹی

پیر 28 مئی 2018 21:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 28 مئی2018ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقیات و اصلاحات نے سی پیک پر حکومت کی یقین دہانیوں پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے الگ سے تفصیلی بریفنگ کا مطالبہ کر دیا ۔ سی پیک میں صوبہ خیبر پختون خواہ اور صوبہ بلوچستان کے لئے کچھ نہیں ، سینیٹر مشاہد حسین کی کمیٹی کو سفارشات مسترد کرتے ہیں انہوں نے مغربی روٹس کے حوالے سے کچھ نہیں کیا،سینیٹر تاج حیدر سفارشات کو اپنانے کی سفارش کر دی ۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقیات و اصلاحات کے چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میںوزارت منصوبہ بندی اور اس کے ماتحت کے اداروں کے کام کے طریقہ کار اور کارکردگی کے علاوہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)میں مختلف منصوبہ جات کے لیے مالی سال 2018-19میں مختص کیے گئے فنڈز اور منصوبہ جات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اجلاس میں سینیٹرز شبلی فراز، محمدعثمان کاکڑ ، گیان چند اور دلاور خان کے علاوہ سیکرٹری منصوبہ بندی شعیب احمد صدیقی ، سپیشل سیکرٹری خزانہ نور احمد ، چیف اکنامسٹ ڈاکٹر ندیم جاوید ،سینئر جوائنٹ سیکرٹری سید طارق جعفری اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

۔ قائمہ کمیٹی نے تفصیلی بریفنگ لیتے ہوئے وزارت منصوبہ بندی سے تاخیر کا شکار ہونے والے منصوبہ جات کا جائزہ لیکر تفصیلی رپورٹ اور منصوبوں کی تاخیر کے مرتکب افسران کی نشاندہی اور و جوہات آئند ہ اجلاس میں طلب کرلی۔ سیکرٹری منصوبہ بندی شعیب احمد صدیقی نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پی ایس ڈی پی میں 1030ار ب روپے مختلف منصوبہ جات کے لیے مختص کیے گئے ہیں ۔

800ارب روپے حکومت دے گی۔ 230ارب روپے پبلک پرائیوٹ سیکٹر کے تعاون سے خرچ کئے جائیں گے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا پی ایس ڈی پی کا منصوبہ ہے ۔ 2013میں ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کئی نئی اصلاحات بھی متعارف کرائی گئی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ قومی ترجیحات اور طریقہ کار کو ن طے کرتا ہے، ڈیٹا کس طرح تیار ہوتا ہے اور جو معلومات فراہم کی جاتی ہے قابل بھروسہ نہیں ہوتیں ۔

وزارت منصوبہ بندی کسی بھی حکومت کے لیے اہم ترین وزارت ہوتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منصوبہ جات لمبے عرصے ، درمیانے اور مختصر عرصے کے ترتیب دیئے جاتے ہیں جو مختلف ورکشاپس ، سیمینار کا انعقاد کراکر ماہرین، وزارتیں اور صوبوں کی رائے کے مطابق ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی وزارت منصوبہ بندی کے دو اہم فورم ہیں ۔

27منصوبہ جات پر وزارت کام کررہی ہے ۔ سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی نے کہا کہ منصوبہ جات وزارتوں اور صوبوں کی مشاورت سے تیار کیے جاتے ہیں۔ پہلے ادارے کے حوالے سے مخالفت میں بیان آتے تھے اب مثبت میں آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ اور شبلی فراز نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں سی پیک کے حوالے سے سینیٹر تاج حیدر کی صدارت میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے جامع رپورٹ تیار کی ہے۔

سی پیک کے حوالے سے تمام دستاویزات اور وہ رپورٹ پیش کی جائے۔ پائیڈ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ریسر چ کا ادارہ ہے ۔ 173آرٹیکل لکھے گئے 517پی ایچ ڈی2015میں انرولڈ کیے گئے ۔ 2017-18میں 709انرول کیے گئے۔ ادارے نے گزشتہ پانچ سالوں میں 173تحقیقی اسٹڈی کروائی 5سالانہ جنرل میٹنگز کروائیں 11تربیتی پروگرام کرائے گئے اور 105سیمینار منعقد کرائے۔

چیف اکنامکس نے کمیٹی کو بتایا کہ 2008-12تک کی جی ڈی پی 2.8فیصد تھی 2013-18سے 4.8فیصد ہوگئی اور 2018-23کا ٹارگٹ 6.5فیصد ہے۔ انڈسٹری 2013-18میں 5.3فیصد تھی اس کا ٹارگٹ اگلے پانچ سال کے لیے 8فیصد رکھا گیا ہے۔ مینیوفیکچرنگ 2008-12میں 1.3فیصد تھی ا ب اگلے پانچ سالوں میں 8فیصد رکھا گیا ہے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ اورسینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ صوبوں کو آبادی کے تناسب سے دیا جاتا ہے جو کہ پسماندگی کے تناسب سے متعین کرنا چاہیے۔

سیکرٹری منصوبہ بندی نے قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ بلوچستان میں پانی کی سپلائی وڈیمز کے لیے ریکارڈ فنڈز مختص کیے گئے ہیں اور صوبوں کو ضرورت کے مطابق فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ حکومت کے ترجیحات سیکٹرز میں مواصلات ، توانائی ، پانی ، صحت شامل ہیں ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ جات کی تکمیل کے لیے فنڈز اور وقت دگنا صرف کیا جاتا ہے ۔

جس پر سیکرٹری منصوبہ بندی نے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے منصوبہ جات میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے بھی مداخلف تاخیر کا سبب بنتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو منصوبہ جات کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں ان کا تعین کرکے سزا دینے کا کلچر شروع کرنے سے ناصرف منصوبہ جات وقت پر مکمل ہوسکتے ہیں بلکہ اربوں روپے کے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

قائمہ کمیٹی کو پی ایس ڈی پی کے منصوبہ جات سے تفصیلی آگا ہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ دسمبر2019تک 10ہزار میگاو اٹ بجلی کے منصوبہ جات پائپ لائن میں ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے فائلر اور نان فائلر کے نئے قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ریلوے کی بحالی کے حوالے سے بجٹ 16ارب سے 40ارب کرلیا گیا ہے۔ گوادر میں 175ارب کے 36منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کیے گئے ہیں ۔

پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کو پورا کرنے کے لیے پی ایس ڈی پی نے بجٹ 36ارب سے بڑھا کر 80ارب کردیئے ہیں۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے 23ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور مہمند ڈیم کے لیی2ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر کے لیے 25ارب ، گلگت بلتستا ن کے لیے 17ارب اور فاٹا کی ڈویلپمنٹ کے لیے 24.5ارب مختص کیے گئے ہیں اور فاٹا کی ترقی کے لیے خصوصی 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ایچ ای سی کے لیے 57ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کراچی ایکسپو سینٹر کی اپ گریڈیشن کے لیے 8ہزار ملین دیئے جائیں گے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی 100ارب روپے پبلک پرائیوٹ پاٹنرشپ کے تحت مختلف منصوبہ جات مکمل کرے گی۔ کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے ملک بھر میں 100اسٹیڈیم 19سو ملین روپے سے تعمیر کیے جائیں گے۔ قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پرفیصلہ کیا کہ وزارت منصوبہ بندی ایسے منصوبہ جات جو عرصہ سے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں ان کی وجوہات اور ملوث افسران کی نشاندہی کرکے رپورٹ مرتب کرکے قائمہ کمیٹی کو پیش کرے ۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز شبلی فراز، محمدعثمان کاکڑ ، گیان چند اور دلاور خان کے علاوہ سیکرٹری منصوبہ بندی شعیب احمد صدیقی ، سپیشل سیکرٹری خزانہ نور احمد ، چیف اکنامسٹ ڈاکٹر ندیم جاوید ،سینئر جوائنٹ سیکرٹری سید طارق جعفری اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔