خواجہ صاحب بڑی تقریریں کر جاتے تھے ، مجھے بھی جوابا کچھ کہنا پڑتا تھا ، ایوان میں جو لو گ آئے ان کو عوام نے منتخب کر کے بھیجا ہے ، وزیراعلیٰ سندھ

جب ڈکٹیٹر کی بادشاہی ہوتی تھی تو تو ادھر سے آرڈر آتے تھے آج اسمبلی سیکشن چلانا ہے اور اتنے دن اور اتنے منٹس چلانا ہے ، بل تو بہت دور کی بات ہے، قائد اعظم کے مشکور ہیں ان کی ذہانت اور سیاست جس طرح سے انہوں نے جدوجہد کی وہ ان کی خوبی تھی کہ جیل جائے بغیر انہوں نے پاکستان لیا،سیدمرادعلی شاہ کا اسمبلی میں الوداعی خطاب

پیر 28 مئی 2018 23:16

خواجہ صاحب بڑی تقریریں کر جاتے تھے ، مجھے بھی جوابا کچھ کہنا پڑتا تھا ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2018ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیر کو سندھ اسمبلی کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج 28 مئی 2018 کو رات 12 بجے اس ٹرم کا آخری دن ہے ہمارا آئین کے تحت ہی اسمبلی اپنی مدت پوری کر رہی ہے ۔ آج سب سے پہلے میں اللہ پاک کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے ایک سال دس مہینہ پہلے اس اسمبلی نے مجھے منتخب کیا اور میری لیڈر شپ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے مجھے منتخب کیا۔

الیکشن ہوئے اور ہائوس نے مجھے منتخب کیا اور لیڈر آف ہائوس کہلانے لگا۔ وزیر اعلی سندھ کے عہدے کا حلف لیا۔ یہ جو وقت 22 مہینے کا رہا ہے میں نے اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اس صوبے کے عوام کی خدمت کی ۔ اس میں میں شکر گزار ہوں اس ہائوس کے ہر ایک ممبر کا جس نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے لیجسلیٹیو میں حصہ لیا۔

(جاری ہے)

خواجہ صاحب بڑی تقریریں کر جاتے تھے اور مجھے بھی جوابا کچھ کہنا پڑتا تھا ۔

اس ایوان میں جو لو گ آئے ہیں ان کو عوام نے منتخب کر کے بھیجا ہے اور یہ پورے سندھ کے نمائندے ہیں اور ان کے لیے یہ عزت ہونی چاہیے چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہو اور میں نے اس حد تک کوشش کی ۔کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا غلطی ہر ایک سے ہوتی ہے کوئی بھی ممبر حکومت کی طرف سے ہو یا اپوزیشن کا ہو ۔ کبھی کسی کو اپنے علاقے سے کوئی ایشو ہو جو میرے بس میں ہوا وہ میں نے کیا ہے اور اس پر مجھے فخر ہے ۔

12 دسمبر 2002 کو میں پہلی بار اس اسمبلی کا ممبر بناتھا۔ گذشتہ 15 سال پہلے دن سے اپنی بجٹ تقریر میں بھی کہاتھا میں نے سیکھنے کی کوشش کی نثار کھوڑو ،قائم علی شاہ اور دیگر سے میں نے سیکھا اورانہوں نے بتایا کہ اسمبلی میں کرنا کیا ہے ۔ مجھے فخر ہے پارٹی کا ممبر ہونے پر جس میں 2008 سی2013 جس میں نثار کھوڑو نے اسپیکر سندھ اسمبلی بن کر تحمل کا مظاہرہ کیا اور میں نے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ۔

برداشت کا مظاہر ہ اس وقت نہیں کیا جاتا تھا جب ڈکٹیٹر کی بادشاہی ہوتی تھی تو تو ادھر سے آرڈر آتے تھے آج اسمبلی سیکشن چلانا ہے اور اتنے دن اور اتنے منٹس چلانا ہے ۔ بل تو بہت دور کی بات ہے۔شاید کوئی ایک آدھی قرار داد پاس ہوئی ہو اپوزیشن کی اس وقت یہ صورت حال تھی۔اس اسمبلی میں آکر 2008 سے 2013 تک اور 2013 سے 2018 تک پاکستان پیپلزپارٹی یقین کرتی ہے ۔

پارٹی سیپیٹڈ ڈیموکریسی یہی ہے نا ، ہم نے یہ ثابت کیا ہے اور اس میں ہر ایک کا رول ہے ، اس پورے ہائوس کا رول ہے ۔ میں ایک بات بتانا چاہوں گا جمعہ کو وزیرا عظم پاکستان کا مجھے فون آیا کہ میں نے سی سی آئی کی آخری میٹنگ کرنی ہے اور آپ پیر کو آجائیں،میں نے کہا کہ پیر کو آنا میرے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ 28 مئی کو ہمارا آخری دن ہوگا میں نہیں آسکوں گا تو انہوں نے کہا کہ پھر اتوار رکھ لیتے ہیں اور وہ میٹنگ تھی پانی پر۔

یہ بات میں اس لیے بتانا چائوں گا کہ یہ جو پانی کا معاہدہ ہے اس کو پانی کی جو تقسیم ہورہی ہے وہ صحیح یا غلط ہورہی ہے اور کیا ہونا چاہیے۔کل میں اس میٹنگ میں گیا تھا اور مجھے امید ہے کہ وہ منٹس صحیح ریکارڈ کرکے آئیں۔اور میں یہ فالواپ کرتا رہوں گا۔یہ منٹس پروپر آجائیں ، معاہدہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اس کے بعد میں نے انہیں پرانی وہ ساری چیزیں دکھائی جو 1991 میں کسی صوبے نے اٹھایا تھا اور 2000 میں بھی ا ٹھایا تھا اور ہمیشہ کرتے رہے ہیں ۔

یہ ہماری کامیابی ضرور ہے اس آخری میٹنگ میں انہوں نے قبول کیا لیکن حل ابھی تک نہیں نکالا کیونکہ اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب موجود نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بات مانیں گے تو ان کا affectہوگا ، ہم ماننے کے بعد یہ چھوڑ دیتے ہیں ۔میں نے کہا کہ 20 سال سے جو آپ غلط کررہے ہیں اور سندھ کو نقصان ہوا تو اس وقت آپ نے ہم(وزیر اعلی سندھ) سے نہیں پوچھا تھا اور اب کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس وقت آپ چھوڑ دیں، ایک اٹارنی جنرل کے تحت انہوں نے ایک کمیٹی بنائی اور اس میں چار لوگ اور ایک ہمارے صوبے سے بھی ہوگا۔ سی سی آئی میں سب نے یہ تسلیم کیا ، وزیر اعلی بلوچستان میرے ساتھ تھے اور ہم دو ہی چیف منسٹر تھے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر ریاض پیر زادہ ، وزیر خزانہ اور دیگر شامل تھے، اور یہ ہماری کامیابی تھی ۔

نگراں حکومتی سیٹ اپ ،میں(وزیر اعلی سندھ ) اور خواجہ اظہار (حزب اختلاف) کا انفرادی کام نہیں ہے، میں اپنی لیڈرشپ اور پارٹی سے مشورے کے بعد فیصلہ کروں اور مجھے امید ہے کہ خواجہ اظہار بھی ایسا ہی کریں گے۔آئین میں جو طریقے کار موجود ہے ہم پورے طریقے سے اس پر عمل کریں گے۔ میں نے کل خواجہ اظہار سے بات کی تھی اور آج ملاقات بھی ہوگی ، نام پر تبادلہ خیال کریں گے اور ہم متفق ہوجاتے ہیں تو کسی ایک نام پر تو آج فیصلہ ہوجائے گا ورنہ 31 تاریخ تک ہمارے پاس وقت ہے، نہیں تو آپ (اسپیکر سندھ اسمبلی) کو گزارش کرنی پڑے گی کہ پھر وہ پارلیمانی کمیٹی اور اگر وہ بھی حل نہ نکال سکے تو الیکشن کمیشن کو وہ چار نام دیں گے۔

آئین کہتا ہے کہ تین دن کے اندر جانے والے وزیر اعلی اور جانے والے قائدحزب اختلاف فیصلہ کریں گے وہ ٹائم کل سے شروع ہوگا اورہم ایک دن پہلے آج سے میٹنگ شروع کریں گے امید ہے کہ ہم جمہوری روایت قائم کرتے ہوئے کسی ایسی شخص پر جو فری اور فیئر الیکشن کراسکے پر متفق ہو جائیں گے اور انشا وہ صوبے میں الیکشن کرائے گا۔آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اپنے والدین کی وجہ سے ہوں اور وہ مجھے ہر وقت یاد رہتے ہیں جب بھی کوئی کام کرتا ہوں وہ گائیڈینس جو میرے والدین کی ہیں وہ مجھے یاد آجاتے ہیں ۔

ایک بات میں واضح کردوں کہ جب میں بجٹ کی اسپیچ ختم کررہاتھا اس وقت میں ایک چیز کلیئر کرنا چاہتا تھا وہ میں نے کی تھی ،میں نے کہا تھا کہ میں جو لوگ اپنا وطن چھوڑ کر ، گھر چھوڑ کر اور پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آئے ان کی بڑی قربانیاں ہیں ور یہ میں تسلیم کر چکا تھا اور اس کو غلط رنگ دیا گیا۔لیکن اگر وہ آگئے ہیں تو اسے اپنا ملک سمجھیں اور اسی وجہ سے آپ یہاں اسمبلی کے ممبر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی الگ صوبے کا مطالبہ کرتا ہے تو ہم بہت اموشنل ہوجاتے ہیں ۔آئین میں ہوگا صوبے کا مطالبہ کرنا ۔اور میں یہ نہیں کہہ رہا وہ بغاوت کررہے ہیں مگر صوبے کے لوگ اسے مسترد کررہے ہیں ۔ صوبے کی تبدیلی تبھی ممکن ہے جب اسمبلی کچھ کرے۔ اور مجھے پتہ ہے اسمبلی کبھی نہیں کرے گی۔ اس صوبے میں رہنے والے سب سندھی ہیں اور اسی طرح ملک میں رہنے والے سب پاکستانی ہیں اور جو میرے وطن ملک کو توڑنے کی بات کرے گا اسیہم سارے محب وطن اسکو ویسا ہی جواب دیں گے۔

ملک میں رہنے والے سارے محب وطن ہمارے بھائی ہیں ۔پارٹی نے جو ذمہ داری تھی اس کو سنبھالنے میں کچھ حد تک اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرسکا ہوں،جنہوں نے مجھے عزت دے کر الیکٹ کرکے بھیجا ان کا شکر گزار ہوں۔ مجھے ایک فلم کا ڈائیلوگ یاد آگیا۔ Stay here I will be back۔اس اسمبلی میں گزشتہ 8 سال سے زیادہ قائم علی شاہ صاحب ہمارے وزیراعلی رہے ہیں، میں یہ درخواست کروں گا میرے بعد قائم علی شاہ صاحب دو لفظ اسمبلی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں ۔

اس لیے کہ میں نے پہلے بھی کہاتھا میں تو چیف منسٹر ہوں پر میرے چیف منسٹر سید قائم علی شاہ ہیں ۔ بہت بہت شکریہ۔ سید قائم علی شاہ صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت شکریہ اسپیکر صاحب چیف منسٹر صاحب کے کہنے پر آپ نے اپنی رولنگ بدلی ہے، آپ نے کہا تھا کہ پارٹی کے جو ہیڈ ہیں وہی بات کریں گے آخر میں لیڈر آف دی ہائوس بات کریں گے۔ میں سب کو مبارک باد دیتا ہوں اس پانچ سال مکمل ہونے پر یہ بہت ہی اچھا وقت گزارا اور میں سمجھتا ہوں ہر ممبر نے اپنے طور پر کنٹریبیوٹ کیا ہے جو نہ آئے وہ کبھی نہ کبھی تو آئے ہیں آکر دستخط تو کیے ہیں ۔

ہم خدا کے بہت مشکور ہیں اور قائد اعظم کے مشکور ہیں ان کی ذہانت اور سیاست جس طرح سے انہوں نے جدوجہد کی وہ ان کی خوبی تھی کہ جیل جائے بغیر انہوں نے پاکستان لیا ،نہیں تو گاندھی جی اور نہرو نے اپنی چپلیں گھسادیں مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سیاست میں جو انہوں نے کوشش کی اس کے بعد انڈیا اور پاکستان بنا اور اس کے بعد ساری تاریخ تو میں نہیں بتائوں گا،مسلسل 25 سال اس ملک میں آئین نہیں بناتھا اور یہ پہلا موقع تھا آدھا ملک جب چلا گیا تو ضرورت اس وقت زیادہ پڑی کہ اور یہی وجہ تھی کہ باہر فیصلے ہوتے تھے اور مرضی چلتی تھی گورنر جنرل صاحب کی اور صدر صاحب کی مرضی ہوتی تھی کہ کسی کو بھی باہر بھیج دے یا اسمبلی کو تحلیل کردے۔

اور سلسلہ اپنی مرضی سے چلتا رہا لیکن یہ پہلی بار شہید بھٹو کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے سب سے مل کرآئین پاس کیا۔اس کے بعد بھی ملک میں مارشل لا آتے رہے آئین معطل ہوتے رہے، میں سمجھتا ہوں کہ محترم آصف علی زرداری کی برداشت، مذاکرات اور بات چیت کی وجہ سے 5 سا ل اسمبلی چلی اور یہ پانچ سال بھی۔ اور ایک دفعہ ایسا ہوتا تھا گذشتہ اسمبلی میں بھی اور اس اسمبلی میں بھی کبھی کہتے ہیں کہ ہم جانے والے ہیں آرہا ہے مارشل آرہا ہے کوئی اور آرہا ہے لیکن تاریخی 5 سال پورے کیے یہ بھی سب کی شراکت داری ہے مرکز میں بھی اور صوبے میں بھی ۔

کوتاہیاں ہوئی ہیں مگر اس کا ذکر میں اس وقت نہیں کرنا چاہوں گا۔ اسمبلی نے اور اس پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے ان پانچ سال میں جو خدمت انجام دی ہے وہ تاریخی ہے۔