شوپیان میں آسیہ اور نیلوفر کی آبروریزی اور قتل کے 9سال بعد بھی ان کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا

نیلوفر کا بیٹا ذہنی صدمے سے دوچار ہے، اس کی خاموشی میں چھپے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں

منگل 29 مئی 2018 12:53

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2018ء) مقبوضہ کشمیر میں ضلع شوپیان میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کی آبروریزی اور قتل کے 9سال بعد بھی ان کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق گزشتہ 9سال کے دوران اگر چہ بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن آسیہ کے بھائی اور نیلوفر کے شوہر شکیل احمد آہنگر کا انصاف کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

انہوںنے کہاکہ وہ کسی دبائو میںنہیں آئے گا اور آخری سانس تک اپنی بہن اور بیوی کو انصاف دلانے کے لیے جدوجہد جاری رکھے گا۔ ضلع شوپیان میں 29مئی 2009ء کو سترہ سالہ آسیہ اپنی بائیس سالہ بھابھی نیلوفر کے ساتھ رنبی آڑہ نامی نہرکے اس پار اپنے باغیچے میں جاتی ہے اور واپس نہیں آتی ہیں۔

(جاری ہے)

گھروالوںنے تلاش بسیار کے بعد باالآخر پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔

اگلے روز بھارتی فوجی کیمپ سے تھوڑی دور نہر کنارے دونوں خواتین کی لاشیں ملتی ہیں جن کے کپڑے پھاڑ دیے گئے تھے۔ اہلخانہ اور مقامی لوگوں کے مطابق خواتین کو آبروریزی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ مقبوضہ علاقے میں اس واقعے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور مسلسل 16روز تک ہڑتال کی گئی جبکہ انصاف کے مطالبے پر زور دینے کے لیے شوپیان قصبے میں مسلسل 47دن تک ہڑتال رہی۔

لیکن 9سال گزرجانے کے باوجود شکیل احمد آہنگر اور دیگر لواحقین کو انصاف نہیں ملا اوربھارتی اداروں پر ان کا اعتماد ختم ہوچکاہے ۔ وہ عالمی فورموں سے انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔ شکیل آہنگر کا کہنا ہے کہ انہیں بھارتی اداروں پر کوئی اعتماد نہیں ہے چاہے وہ عدلیہ ہو یا کوئی تحقیقاتی ادارہ ۔ یہ وہی کچھ کرتے ہیں جو حکومت چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس مسئلے پر سیاست کھیلی ہے۔

انہوںنے کہا اقتدار سے پہلے متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی ان کا سب سے اہم نعرہ تھا لیکن اقتدار سنبھالتے ہی وہ سب کچھ بھول گئیں۔شکیل آہنگر کے بیٹے کی عمر اب گیارہ سال ہے اوروہ اس واقعے کے وقت محض دو سال کا تھا۔ اس کو اب سب کچھ معلوم ہے کہ اس دن کیا ہوا تھااور وہ اپنی والدہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے لیکن کچھ کہتا نہیں ہے۔ شکیل کے مطابق وہ بہت کم باتین کرتا ہے اور تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔ان کے اساتذہ ہمیشہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ دیگر بچوں سے گھل مل نہیںجاتا ہے۔ یہ صرف شکیل کے بیٹے کی کہانی نہیں بلکہ وادی کشمیر میں سینکڑوں بچے ایسے ہی ذہنی صدمے سے دوچار ہیںجن کی خاموشی میں بھی ہزاروں سوال چھپے ہیں اور جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔