بدترین کارگردگی کے باعث پاکستان کا وہ واحد صوبہ جس کیلئے ورلڈ بینک نے امداد بند کرنے کا اعلان کردیا

کارکردگی غیر تسلی بخش ہونے کے باعث عالمی بینک نے سندھ میں اسکولوں کیلیے فنڈنگ روک دی

منگل 29 مئی 2018 16:31

بدترین کارگردگی کے باعث پاکستان کا وہ واحد صوبہ جس کیلئے ورلڈ بینک ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2018ء) عالمی بینک کی جانب سے سندھ میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے تحت قائم سرکاری اسکولوں کے انفرا اسٹرکچر اور معیار تعلیم کی بہتری کے لیے فنڈنگ روک دی گئی ہے۔عالمی بینک کی جانب سے سندھ میں سرکاری اسکولوں کی سطح پرتعلیم معیار اور انفرا اسٹرکچرکی بہتری کے لیے جاری منصوبہ سندھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم پروجیکٹ ٹو خاتمے کے قریب پہنچ گیا ہے اورکسی نئے منصوبے پر کام شروع نہ ہونے کے سبب سندھ میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے تحت قائم سرکاری اسکولوں کے انفرا اسٹرکچر اور معیار تعلیم کی بہتری کے لیے عالمی بینک کی فنڈنگ ختم ہوگئی ہے جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ کے دیگرسیکڑوں اسکولوں کوملنے والا فنڈبھی عالمی بینک کے بجائے اب حکومت سندھ کے حصے میں آگیاہے یہ دیگر اسکولزبھی محکمہ اسکول ایجوکیشن ہی کے ایک ادارے سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے ماتحت کام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

دوسری جانب عالمی بینک نے سندھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم ٹو کے تحت جاری بعض جاری پروگرامز کے اہداف کے حصول میں پیشرفت نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے منصوبوں کی رفتار کو غیرتسلی بخش بھی قرار دے دیا ہے منصوبے پر عملدرآمد کی رفتار اور اس میں سرکاری سطح پر تاخیر پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبہ رواں سال کے آخرتک اپنی معینہ مدت تک پورانہیں ہوسکے گا۔

عالمی بینک کی جانب سے سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروجیکٹ ٹوکی چندماہ قبل جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق منصوبے پر عملدرآمد تو اطمینان بخش ہے تاہم منصوبے سے حاصل ہونے والے اہداف غیرتسلی بخش ہیں یہ رپورٹ منصوبے کے آخری برس رواں سال جنوری میں جاری کی گئی ہے جس میں کہاگیاہے کہ کم از کم دواہم سرگرمیوں میں کام کی رفتارانتہائی سست ہے ان دواہم سرگرمیوں میں(ڈی ایل آئی) Disbursement linked indicators نمبر 10 اساتذہ کی بھرتیاں اور نمبر 11 بیسک کوالٹی اسٹینڈرڈ اسکولزشامل ہیں اوردواہم سرگرمیوں میں بہت کم پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔

اساتذہ کی بھرتیوں کی پالیسی کے حوالے سے حکومتی منظوری میں کئی ماہ سے تاخیرہورہی ہے جبکہ کوالٹی اسٹینڈرڈاسکولوں کے حوالے سے تعلیمی اداروں کے انتخاب میں متوقع وقت سے کہیں زیادہ وقت لگادیاگیاہے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اگرکام کی رفتارفوری تیز نہ کی گئی تودسمبر2018میں منصوبے کے اختتام تک اس کی سرگرمیاں مکمل ہی نہیں ہوپائیں گی یادرہے کہ اس سے قبل جون 2017میں آنے والی عالمی بینک کی رپورٹ میں سندھ کے سرکاری اسکولوں کی انرولمنٹ میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہونے کی شکایت بھی کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ حکومت سندھ کی جانب سے اسکولز ریفارم (اصلاحات) پراطلاق کیاگیاجن میں میرٹ کی بنیاد پر اساتذہ کی بھرتیاں ،اسکول کنسولیڈیشن،اساتذہ اورطلبہ کی ماہانہ حاضری کی مانیٹرنگ،اسٹوڈینٹ اچیومنٹ ٹیسٹ شامل ہیں تاہم یہ اصلاحات بھی اسکولوں کی انرولمنٹ میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکی ہیں۔

یادرہے کہ عالمی بینک کے تعاون سے سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروجیکٹ کوحکومت سندھ نے محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کے حوالے کررکھاہے سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروگرام کی غیرتسلی بخش پیشرفت کامعاملہ ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب سندھ کے سرکاری اسکولوں کے انفرااسٹریچکراور معیارات کی بہتری کے سلسلے میں شروع کیاگیایہ پروجیکٹ اپنے مدت کے چوتھے اورآخری سال میں داخل ہوچکاہے۔

دوسری جانب بینک کی جانب سے ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروگرام کی مدت پوری ہونے پر کسی نئے منصوبے کے لیے فنڈنگ جاری کرنے کے حوالے سے بھی کوئی عندیہ نہیں دیاگیا جس کے سبب سندھ میں عالمی بینک کے جاری منصوبے کے آخری برس اب مزید کسی نئی فنڈنگ کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں یادرہے کہ عالمی بینک کی جانب سے سندھ میں اسکول ایجوکیشن کی بہتری کے لیے گزشتہ ایک عشرے سے بھی زائد عرصے مالی تعاون جاری تھااورسندھ ایجوکیشن ریفارم پروگرام اسی تعاون کی ایک کڑی تھی۔

ذرائع کہتے ہیں بینک کی جانب سے مزیدکسی نئی مدت کے لیے مالی تعاون دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے دلچسپی ظاہرنہیں کی جارہی جس کے سبب سندھ میں اب عالمی بینک کی جانب سے ایجوکیشن سیکٹرمیں جاری منصوبے اورفنڈنگ اختتام کے قریب پہنچ گئی ہے حال ہی میں خاتمے کے قریب پہنچنے والامنصوبہ سیکنڈسندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروجیکٹ(SERP 2)2600 ملین ڈالرسے سندھ میں سرکاری اسکولوں کے انفرااسٹریچکراورتعلیمی معیارکی بہتری کے لیے شروع کیاگیاتھا ۔

منصوبے کی عالمی بینک کی جانب سے 14مارچ 2013کومنظوری دی گئی تھی جبکہ چارسالہ مدت کے اس منصوبے کاآغاز19مارچ 2014سے ہواتھااور30جون2017کوختم ہونے والے اس منصوبے میں رواں سال 31دسمبر2018تک توسیع کردی گئی۔عالمی بینک کی فنڈنگ سے سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروجیکٹ ٹو کے مختلف پروگرامز میں پروگرام بجٹ اینڈ ایکسپینڈیچر مینجمنٹ، اینول اسکول سینسز (سالانہ اسکول شماری)، اسٹوڈنٹ اچیومنٹ ٹیسٹ، ٹیچر مینجمنٹ ٹیچرز ریکروٹمنٹ (اساتذہ کی بھرتیاں)، اسکول اسپیسیفک بجٹ، اسکول مینجمنٹ کمیٹز، اسکول انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ، پروموٹنگ پرائیویٹ اسکولز ان رولرسندھ(پی پی آر ایس)، ٹیچر پروفارمنس مینجمنٹ،ایجوکیشن مینجمنٹ،اسکول کونسولیڈیشن،، پروکیورمنٹ،فنانشل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹمشامل تھے جبکہ اس میں بائیومیٹرک سسٹم شامل کرتے ہوئے اساتذہ اورطلبہ کی حاضری کانظام بھی شامل کیاگیاتھا۔

اس سلسلے میں جاری ریفارم سپورٹ یونٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق منصوبے کے ایک پروگرام اسٹینڈرائزڈ اچیومنٹ ٹیسٹکی مد میں سال 2017میں 149ملین روپے خرچ کیے گئے جوتھرڈ پارٹی کوٹیسٹ کے انعقاد اورنتائج کی تیارکی مد میں دیے گئے جبکہ 2015/16 کے لیے منعقدہ اس ٹیسٹ میں 145ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔واضح رہے SERF 2کے اس پروگرام کے تحت سندھ بھرکے سرکاری اسکولوں کے پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ کے انگریزی، ریاضی اور سائنس کے مضامین کے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اوران طلبہ کامتعلقہ مضامین میں معیاراورکارکردگی جانچی جاتی ہے اورٹیسٹ سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی،اساتذہ کی بھرتیاں اوران کی تربیت کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں مزیدبراں منصوبے کے ایک اورپروگرام اسکولز منیجمنٹ کمیٹیز(ایس ایم سیز) کے تحت سرکاری اسکولوں کوسالانہ بنیاد پربجٹ جاری کیاجاتاہے۔

منصوبے کے حوالے سے موصولہ تفصیلات کے مطابق 2017 میں سندھ کے 27541 سرکاری پرائمری اسکولوں کو 637 ملین روپے جاری کیے گئے اورہراسکول کو اوسطا 23124روپے جاری کیے گئے اسی طرح سندھ کے 1371 مڈل اسکولوں کومجموعی طورپر90ملین روپے جبکہ اوسطا ہر اسکول کو65901روپے جاری ہوئے جبکہ 1533 ہائر سیکنڈری اسکولوں کومجموعی طوپر203ملین روپے اور اوسطا 132104روپے جاری ہوئے۔

سندھ میںکل 30445 سرکاری اسکولوں کومجموعی طورپر930ملین روپے جاری کیے گئے جبکہ 2016میں یہ ایس ایم سیز کی یہ رقم 1250ملین روپے تھی اسی منصوبے کے مزیدایک پروگرام پروموٹنگ پرائیویٹ اسکولز ان رورل سندھ(پی پی آر ایس)کوحکومت سندھ کے ادارے سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے حوالے کیا گیا قابل ذکرامریہ ہے کہ اگر چار سال تک جاری رہنے والے اس منصوبے سے حاصل ہونے والے اہداف کاجائزہ لیں تومعلوم ہوگاکہ منصوبے کے آخری دوسال میں سندھ میں انرولمنٹ میں محض 2فیصد طلبہ کااضافہ ہی ہوسکاہے۔

2015/16 میں سندھ کی انرولمنٹ 41لاکھ 45 ہزار 219 تھی جواب 83 ہزار 909 طلبہ کے اضافے کے بعد 42لاکھ 29 ہزار128ہوسکی ہے اوراوسطاہراسکول میں تقریبا2طلبہ کا اضافہ ہواہے اور ماہرین کاکہناہے کہ ڈونرایجنسیزکی کروڑوڈالرکی امداد یا تعاون اورحکومت سندھ کے دعوئوں کے برعکس محکمہ اسکول ایجوکیشن طلبہ اوران کے والدین کوسندھ کے سرکاری اسکولوں کی جانب رغبت دلانے میں ناکام رہا ہے واضح رہے کہ سندھ میں 42383 ہیں اورسندھ میں چار سال سے جاری سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم 2 کے باوجود تاحال ان 42383سرکاری اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

محض 57فیصد24255 سرکاری اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت موجود ہے 45 فیصد 19148 اسکولوں میں بجلی، 63 فیصد 26905میں بیت الخلا اور 61 فیصد یعنی26024 اسکول چاردیواری میں قائم ہیں یعنی چارسال تک جاری رہنے والے ریفارم پروگرام کے باوجود 43فیصد اسکولوں میں پینے کاپانی نہیں ہے ،55 فیصد اسکول بجلی سے محروم ہیں 37فیصد بیت الخلا اور39فیصد میں چاردیواری ہی نہیں ہے مزیدبراں سندھ میں فی ٹیچرطلبہ کاتناسب 28 ہے یعنی ہر28طلبہ کیلیے ایک استادہے۔

زیرتعلیم ہر 100 طلبہ پر ایک اسکول اور39طلبہ پرایک کمرہ جماعت ہے تاہم یہ تناسب اساتذہ ،اسکولوں اورکمرہ جماعت کی کافی تعدادکے سبب نہیں بلکہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کیاانتہائی کم انرولمنٹ کے سبب ہے چارسال سے جاری سندھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کاجائزہ لیں تومعلوم ہوگاکہ حکومت سندھ اس پروگرام کے گزشتہ آخری دوسال میں صرف 7فیصد مزید سرکاری اسکولوں میں پانی کی سہولت دے سکی ہے اسی طرح محض مزید8فیصداسکولوں کی بجلی کی سہولت ،مزید 9 فیصد اسکولوں کوبیت الخلا کی سہولت اور مزید 2 فیصد اسکولوں میں چاردیواری بناسکی ہے۔

ماہرین کاخیال ہے کہ بنیادی سہولت کی عدم فراہمی ہی سندھ کے عوام کو سرکاری اسکولوںکی جانب لانے میں ناکامی کاسبب ہے۔ سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروجیکٹ کے ایک اہم ترین جز( component)سرکاری اسکولوں کے طلبا وطالبات کی اہلیت جاننے کے لیے اسٹینڈرائزاچیومنٹ ٹیسٹ ( SAT) ہر سال باقاعدگی سے لیاجاتارہا2017میں لیے گئے ٹیسٹ کے جاری کردہ نتائج ہی تاحال تازہ ترین نتائج ہیں کیونکہ 2018کے ٹیسٹ کے نتائج تاحال جاری نہیں ہوئے ہیں 2017کے نتائج انتہائی مایوس کن ہیں۔

یہ ٹیسٹ سرکاری اسکولوں میں پانچویں اورآٹھویں جماعت کے طلبہ سے انگریزی،ریاضی اورسائنس کے مضامین میں ان کی اہلیت کااحاطہ کرتے ہیں اورمحکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کے جاری اعدادوشمار کے مطابق سرکاری اسکولوں کے پانچویں جماعت کے 180453طلبہ اور آٹھویں جماعت کے 115117طلبہ اس ٹیسٹ میں شریک ہوئے تھے اعدادوشمار کے مطابق پانچویں جماعت کی سطح پر تمام تین مضامین میں 26.1فیصد لڑکے اور 27.5 لڑکیاں اس ٹیسٹ میں کامیاب ہوئیں جبکہ آٹھویں جماعت کی سطح پر 28.9لڑکے اور32.4فیصد لڑکیاں ٹیسٹ پاس کرسکیں۔

اسی طرح دیہی اورشہری سندھ کی تقسیم کے ساتھ یہ نتائج بھی انتہائی مایوس کن ہیں پانچویں جماعت کی سطح پر اربن سندھ (شہری )علاقوں کے 26.4فیصد جبکہ رورل سندھ (دیہی) علاقوں کے 24.4فیصد بچے یہ ٹیسٹ پاس کر سکے اسی طرح آٹھویں جماعت کی سطح پر شہری سندھ کے 30.8 فیصد اوردیہی سندھ کی سطح پر 29.9فیصد طلبہ ٹیسٹ پاس کرسکے۔مزیداعدادوشمار کے مطابق کراچی میں پانچویں جماعت کے 29.29 فیصد اور آٹھویں جماعت کے 32.98 فیصدطلبہ نے یہ ٹیسٹ پاس کیاشہیدبینظیرآباد کے پانچویں جماعت کے 28.01فیصد اورآٹھویں جماعت کے 29.07 فیصد، میرپور خاص کے پانچویں جماعت 30.42 فیصدکے اورآٹھویں جماعت کے 32.85فیصد، حیدر آباد کے پانچویں جماعت کے 26.62 فیصد اورآٹھویں جماعت کے 30.24فیصد،لاڑکانہ کے پانچویں جماعت کے 23.05فیصداورآٹھویں جماعت کے 27.03 فیصد اور سکھرکے پانچویں جماعت 24.69 فیصدکے اورآٹھویں جماعت کے 30.31فیصد طلبہ نے یہ ٹیسٹ پاس کیا۔

واضح رہے کہ کراچی میں پانچویں جماعت کے 21511 اور آٹھویں جماعت کے 23194طلبہ اس ٹیسٹ میں شریک ہوئے تھے اسی طرح شہیدبینظیرسے پانچویں جماعت کے 30488 اور آٹھویں جماعت کے 20441 طلبہ، میر پور خاص سے پانچویں جماعت کے 19706اورآٹھویں جماعت سے 9730،حیدرآبادسے پانچویں جماعت کے 43620 اورآٹھویں جماعت کے 24985،لاڑکانہ سے پانچویں جماعت کے 35031 اور آٹھویں جماعت کے 19632 جبکہ سکھرسے پانچویں جماعت کے 30097 اور آٹھویں جماعت کے 17135 طلبہ اس ٹیسٹ میں شریک ہوئے تھے۔

دریں اثنا میڈیانے جب اس تمام صورتحال اورعالمی بینک کے سندھ میں تعلیم کے حوالے سے جاری منصوبے کے خاتمے اورکسی نئے منصوبے کے شروع نہ ہونے کے حوالے سے صوبائی سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اقبال درانی سے رابطہ کیاتوانھوں نے تصدیق کی کہ اب تک سندھ ایجوکیشن سیکٹرریفارم پروگرام ٹوکے اختتام پر عالمی بینک کی جانب سے کسی نئے منصوبے کے لیے فنڈنگ بظاہریافوری امکانات نہیں ہیں۔

سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کاکہناتھاکہ سب سے پہلے صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کاذیلی ادارہ ریفارم سپورٹ یونٹ کابورڈاس سلسلے میں حکومت سندھ کے ذریعے عالمی بینک سے سفارش کرے گاتاکہ سندھ میں اسکولوں کی بہتری کے لیے کوئی نیامنصوبہ پھرسے شروع کیا جا سکے تاہم سیکریٹری اسکولز کادعوی تھاکہ منصوبے کے حوالے سے مطلوبہ اہداف پورے ہوئے ہیں اوراسی بنیادپرعالمی بینک سے بات کی جائے گی۔