صوبہ پنجاب کی نمائندگی کرتی ہوں،

کسی کے ذاتی مفاد کی نہیں ،پی ٹی آئی کو کوئی بہتر جواز ڈھونڈنا چاہیے تھا‘عاصمہ حامد کس کی حکومت آتی ہے اور کس کی نہیں اس سے کوئی سروکار نہیں،مستقبل میں میرا کام ریاست کے مفاد کا دفاع کرنا ہو گا‘ایڈووکیٹ جنرل پنجاب

بدھ 30 مئی 2018 14:25

صوبہ پنجاب کی نمائندگی کرتی ہوں،
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مئی2018ء) پنجاب کی پہلی خاتون ایڈووکیٹ جنرل عاصمہ حامد نے کہا ہے کہ میں صوبہ پنجاب کی نمائندگی کرتی ہوں، کسی کے ذاتی مفاد کی نہیں ،پی ٹی آئی کو کوئی بہتر جواز ڈھونڈنا چاہیے تھا ،کس کی حکومت آتی ہے اور کس کی نہیں، اس سے کوئی سروکار نہیں،مستقبل میں میرا کام ریاست کے مفاد کا دفاع کرنا ہو گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عاصمہ حامد نے کہا کہ اپنی تقرری کے حوالے سے وہ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ دن وکالت کے پیشہ سے منسلک خواتین کے لیے ایک اہم دن ہے۔ایک خاتون کو بااختیار بنانے کا مطلب ہے کہ آپ معاشرے میں خصوصاً اس پیشے سے منسلک پورے حصے کو بااختیار تسلیم رہے ہیں۔ آپ اس خاتون پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ بھی اس منصب کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے اتنی ہی اہل ہے جتنا کوئی بھی مرد ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہیں یقین ہے کہ ان کی تقرری ایک وکیل کے طور پر ان کی قابلیت کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے نہ کہ صرف اس لیے کہ وہ ایک خاتون ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ صوبہ بھر میں با اعتماد اور قابل خواتین وکلا بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ یہ ایک مردوں کا معاشرہ ہے جہاں وکالت کے پیشہ میں خصوصا مردوں کا غلبہ ہے۔عاصمہ حامد کی نظر میں اسی وجہ سے معاشرتی رکاوٹوں کے علاوہ دو وجوہات ایسی ہیں جن کی بنا پر زیادہ خواتین ہائی کورٹ یا اس سے اوپر کی سطح تک نہیں پہنچ پاتیں۔

ایک تو لوگ یا مکل خواتین پر زیادہ اعتماد کا اظہار نہیں کرتے اور دوسرا زبان سے ناآشنائی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے خود ایسی تمام رکاوٹیں محنت سے عبور کیں،قانون اور قانونی مسائل پر گرفت مطالعے اور مشق ہی سے ملتی ہے، اس کے لیے کوئی مرد ہو یا عورت کسی کے پاس کوئی درمیانہ راسطہ نہیں ہے۔میں نے اسی طرح کام کیا جس طرح کوئی مرد کر سکتا ہے۔

اگر مجھے راتوں کو دیر تک رکنا پڑا تو میں نے اس کو قبول کیا، اگر ایک ماہ کے لیے راولپنڈی بنچ میں تعینات کیا گیا تو میں وہاں گئی۔ ایک عورت ہونے کے ناتے مجھے کوئی خصوصی سہولیات فراہم نہیں تھیں۔ میں نے ویسے ہی کام کیا جیسے کوئی بھی مرد کر سکتا ہے۔اس طرح ایک فائدہ ان کو یہ بھی ہوا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد حضرات کو بھی ان کے ساتھ اسی آزادی اور اعتماد سے کام کرنے کا موقع ملا جس طرح وہ اپنے کسی بھی مرد ساتھی کے ساتھ کام کرتے ہوئے محسوس کرتے ہوں گے۔

عاصمہ حامد کا کہنا تھا کہ مستقبل میں بھی ان کا کام ریاست کے مفاد کا دفاع کرنا ہو گا۔ کس کی حکومت آتی ہے اور کس کی نہیں، اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے ان کی تعیناتی کے خلاف چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں ایسا کرنا ہی تھا تو کوئی بہتر جواز ڈھونڈنا چاہیے تھا۔وہ سنہ 2014ء میں اسی حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل مقرر کی گئیں تھیں اور وہ لاہور ہائی کورٹ میں قانون کی اعلی افسر ہوں گی۔

میں صوبہ پنجاب کی نمائندگی کرتی ہوں، حکومتِ پنجاب کی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہمیشہ سے عوامی مفاد کا دفاع کیا ہے نہ کہ کسی کے ذاتی مفاد کا اور اس کے لیے میں نہ صرف لاہور ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ میں بھی جانی جاتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بھی ان کا کام ریاست کے مفاد کا دفاع کرنا ہو گا۔ کس کی حکومت آتی ہے اور کس کی نہیں، اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔عاصمہ حامد سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کی صاحبزادی اور سابق وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد کی بھتیجی بھی ہیں۔