تیل و گیس کے شعبے میں حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی بے مثال ہے،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی تیل و گیس کے شعبے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 5سالہ کارکردگی کے حوالے سے پریس کانفرنس

بدھ 30 مئی 2018 15:58

تیل و گیس کے شعبے میں حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی بے مثال ہے،وزیراعظم ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 مئی2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تیل و گیس کے شعبے میں حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو بے مثال قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ آج گھریلو و صنعتی صارفین سمیت ہر صارف کو سستی اور وافر گیس دستیاب ہے،گذشتہ پانچ برسوں کے دوران گیس، تیل، ایل این جی، ایل پی جی کے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، فخر ہے کہ تیل و گیس کے شعبے کو اعلیٰ عالمی معیارات سے ہم آہنگ کیا ہے، قطر معاہدے کے تحت دنیا میں سستی ترین ایل این جی پاکستان لے کر آئے ہیں، دنیا کی بڑی کمپنیاں ایل این جی کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمائیہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں، تاپی گیس پائپ لائن پر کام تیزی سے جاری ہے، 2020ء میں تاپی منصوبے سے گیس فراہمی شروع ہوجائے گی، پہلی مرتبہ200 ارب روپے کی لاگت سے 1700 کلومیٹر گیس پائپ لائن اور 25 ہزار کلو میٹر ڈسٹری بیوشن پائپ لائن بچھائی گئی، عالمی معیار کی 3 نئی آئل ریفائنریاں قائم کی جا رہی ہیں، انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، ہمیں ان کی پراہ نہیں، آئین60 دن کی اجازت دیتا ہے اس مدت میں الیکشن ہونا ہیں، جو اسکی خلاف ورزی کر ے گا اس پر آئین کا آرٹیکل چھ لاگو ہونا چاہیے، ایل این جی کے حوالے سے قطر معاہدہ پی ایس او کی ویب سائٹ پر آج بھی موجود ہے‘ یہ دنیا کا سستا ترین معاہدہ ہے، جس نے الزام لگانا ہے وہ لگائے‘ الزامات مجھ پر لگائے‘ افسران اور محکمے کو تنگ نہ کریں ‘میں ہر الزام کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں ‘ مجھ پر وہ شخص الزام لگائے جو یہ کہہ سکے جب وہ سیاست میں آیا تھا اس وقت اس کے اثاثے اور وسائل زیادہ تھے اور آج کم ہوئے ہیں‘ میں جب 30 سال قبل سیاست میں آیا تھا تو میرے اثاثے اور وسائل زیادہ تھے آج ان میں کمی آئی ہے، مجھے میری جماعت نے وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا ہے، میری ذمہ داری کام کرنا ہے اور میں جمعرات کی شب رات 11بجکر 59 منٹ 59 سیکنڈ تک کام جاری رکھوں گا۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو وزیراعظم آفس میں تیل و گیس کے شعبے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 5سالہ کارکردگی کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جس طرح دیگر شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اسی طرح تیل و گیس کے شعبے میں بھی بہت بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور دور رس تبدیلیاں لے کر آئی ہے جو کئی عشروں تک مفید ثابت ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی توانائی مصرف میں 2017ء تک کے عرصہ میں 23 فیصد تک کا اضافہ ہوا اور اس میں رواں سال کو شامل کرلیں گے تو یہ اضافہ 28 فیصد ہو جائے گا۔ عالمی معیار کے مطابق یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ڈومیسٹک گیس کے شعبے میں گھریلو صارفین کو 2013ء میں گیس کے نرخ106 روپے ملتے تھے اور اب 2018 میں 110 روپے ہیں اور یہ معمولی اضافہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد فعالیت کے حوالے سے گیس کے شعبہ میں مکمل تبدیلی آگئی ہے اور اس پر عمل کیا گیا ہے، تمام صوبوں کے ساتھ ملک کر مشترکہ مفادات کونسل میں مشاورت ہوئی اور پٹرولیم کے حوالے سے ماڈل بنایا گیا اور اس پر عملدرآمد کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ تیل کی تلاش کیلئے 46 نئے لائسنس جاری کئے گئے، 51 لیز دی گئیں، گذشتہ پانچ سالوں کے دوران 73 پرانی کنورژن کو نئی پالیسی میں تبدیل کیا گیا، 116 نئی دریافتیں ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے، اس سے 35 ہزار بیرل تیل کا اضافہ ہوا اور پیداوار ایک لاکھ بیرل یومیہ سے تجاوز کرگئی،900 ملین مکعب فٹ گیس سسٹم میں شامل ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری طویل المدتی کامیابی ہے کہ 5 سال میں جتنی گیس زمین سے نکال کر استعمال کی گئی اتنی ہی دریافت کی گئی اور آج بھی اتنی ہی مقدار ریزور کے طور پر موجود ہے، اور پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گیس کے 445 نئے کنوئیں کھودے گئے، 221 میں گیس کی تلاش کامیاب رہی اور کامیابی کی شرح 50 فیصد رہی جو مثبت کامیابی ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ جب گیس نکلتی ہے تو اس کو پراسیس کرنا ضروری ہوتا ہے، بدقسمتی سے گیس نکلتی تھی لیکن پلانٹس نہیں لگتے تھے، گیس زمین میں رہتی تھی یا کسی اور صورت میں سسٹم میں ڈالتے تھے اور ایل پی جی ضائع ہوجاتی تھی۔

وزیراعظم نے کہاکہ ہم نے 4 سال محنت کی اور اس حوالے سے سندھ، خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں پلانٹس کو فعال کیا گیا۔ جوائنٹ وینچر پلانٹس بھی اب فعال ہیں، ایل پی جی کی ملکی پیداوار میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزیرا عظم نے کہاکہ جی ڈی ایس کی مد میں صوبوں کو وفاق سے 2013ء میں 30 ارب روپے دیئے گئے تھے جبکہ 2017 ء میں صوبوں کو 73 ارب دیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو ٹرانسمیشن پائپ لائن کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور شائد گزشتہ 30 سال میں ایسی کوئی ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھائی گئی۔ ہم نے 200 ارب روپے کی لاگت سی42 انچ قطر کی 1700 کلومیٹر کی ٹرانسمیشن پائپ لائن بچھائی جبکہ روس اور چین کی شراکت سے مستقبل میں شمال جنوب مزید 2 پائپ لائنیں بچھانے کا بندوبست کردیا گیا ہے، یہ تجارتی لحاظ سے موزوں منصوبے ہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ 25 ہزار کلومیٹر طویل ڈسٹری بیوشن پائپ لائن بچھائی گئی۔ وزیر اعظم نے بتایاکہ 2013ء میں گیس کے گھریلو صارفین کی تعداد 70 لاکھ تھی، پانچ سالوں کے دوران گھریلو صارفین کی تعداد 90 لاکھ تک پہنچ گئی اور 20 لاکھ اضافی صارفین کو میرٹ پر کنیکشن دیئے گئے اور ایک کنکشن بھی سفارش پر نہیں دیا گیا۔ شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ 2013ء میں سی این جی سٹیشنز پر کئی کلومیٹر کی قطاریں لگی ہوتی تھیں، آج کوئی لائن نہیں اور سی این جی وافر دستیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کے لئے بھی گیس نہیں تھی، کھاد کے تین بڑے کارخانے بند تھے ،گھروں کے اندر بھی گیس کم تھی آج ہر صارف کو گیس میسر ہے ، گیس پر چلنے والے تمام پاور پلانٹس مکمل فعال ہیں، 2013ء میں یوریا کھاد 10 لاکھ ٹن درآمد کی گئی جبکہ ہم نے گزشتہ سال6 لاکھ ٹن یوریا برآمد کی ہے، یہ گیس کی وافر فراہمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ وزیراعظم نے گیس پائپ کے علاقائی منصوبوںکا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "تاپی" گیس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے، 2020ء سے اس منصوبے سے گیس ملنا شروع ہوجائے گی، اس میں پاکستان کی سرمایہ کاری نہایت محدود ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پابندیوں کی وجہ سے ممکن نہیں۔ ایل این جی کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج اس شعبہ میں پاکستان دنیا میں ایک کامیاب سٹوری ہے، ایل این جی لانے کے لئے پچھلی حکومتوں میں کئی کوششیں ہوئیں لیکن ناکام ہوئیں، آج پوری صنعت تعریف کرتی ہے، ایل این جی ٹائم فریم ، طریق کار اور مستعدی سے دنیا کی کم ترین قیمت پر فراہم کی جارہی ہے۔

انہوں نے کسی نے الزام لگا نا ہے تو لگائے، جواب دینے کے لئے تیار ہیں، پوری دنیا مانتی ہے کہ ہم 20 ماہ میں ایل این جی لے کر آئے، گیس سستا فیول ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کی بڑی کمپنیاں پاکستان میں ایل این جی ٹرمینلز لگانا چاہتی ہیں اور ایل این جی پر مبنی گیس فروخت کرنے کی خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 176 بحری جہاز آ چکے ہیں جو اتنے کم عرصہ میں دنیامیں ایک ریکارڈ ہے، اب پاکستان کے پاس آپشن ہے کہ پلانٹس ایل این جی پر چلائے یا تیل پر چلائے، ایل این جی کا پلانٹ لگاتے ہیں تو لاگت نصف ہوجاتی ہے ‘ملک میں گیس کا بحران ختم کر دیا ہے‘ دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں پاکستان کو بڑی ایل این جی مارکیٹ کے طور پر دیکھتی ہیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔

ایل پی جی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں بڑے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، پاکستان میں گزشتہ حکومتوں کے دوران ایل پی جی کے کوٹے تقسیم کیے جاتے تھے، ہمارے دور میں ایک بھی کوٹہ نہیں دیا گیا اور پرانے کوٹے بھی ختم کردیئے گئے، شفاف انداز سے نیلامی کے عمل سے ایل پی جی دی گئی۔ وزیراعظم نے کہاکہ بلوچستان میں گیس پورے پاکستان میں استعمال ہورہی تھی لیکن کوئٹہ کے علاوہ کہیں گیس نہیں دی گئی۔

اب بلوچستان کے ہر ضلع میں ایل پی جی ائیر مکس پلانٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر، چترال، گلگت کے پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ سندھ کے دور دراز علاقوں کے لئے بھی ایل پی جی ائیر مکس پلانٹ بنائے جا رہے ہیں، سوات میں بھی ایسے پلانٹ لگ رہے ہیں، سکردو کے پلانٹ کی بھی منظوری ہوئی ہے روڈ انفراسٹرکچر ٹھیک ہوتے ہی لگا دیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سردیوں میں ایل پی جی کا سلنڈر اڑھائی ہزار روپے کا ہوتا تھا اس دفعہ 1200روپے سے اوپر نہیں گیا، ہم نے اس شعبے کو ریگولیٹ کیا تاکہ عوام کو ریلیف دیاجائے۔

تیل کے شعبے کی کارکردگی کاذکر کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا تھا ہم بدترین پٹرول اور ڈیزل استعمال کر رہے تھے، وزارت اور صنعت میں بہت مخالفت تھی،آج لوگ یورو ٹو معیار کا ڈیزل استعمال کر رہے ہیں جو ماحول دوست ہے، ایک کروڑ ٹن ڈیزل سالانہ استعمال کرتے ہیں، اب اس کے باعث آلودگی دسویں حصے سے بھی کم رہ گئی ہے، پاکستان 87 رون پٹرول استعمال کرنے والاآخری ملک تھا، آج 92 رون معیار کا پٹرول دستیاب ہے اور قیمت میں بھی کمی ہوئی ہے ، پہلی مرتبہ انٹر نیشنل کمپنیاں بھی آئل کے ٹینڈرز میں شامل ہوئی ہے۔

ہم نے ہائر اینڈ کے فیول کو ڈی ریگولیٹ کیا، اس کے نتیجہ میں معیاری ایندھن آیا، قیمت بھی کم اورسپلائی چین بھی بہتر ہوئی، 23 اضافی آئل کمپنیاں آئی ہیں، کابینہ نے ڈیزل کی ریگولیشن کی اجازت دے دی ہے۔ وزیر اعظم نے ایندھن کے ذخیرے کے حوالے سے بتایاکہ ملک کے اندر پٹرول کے ذخیرے کی کمی تھی اس کے لئے 2 لاکھ میٹرک ٹن اضافی سٹوریج بنائی گئی۔

کراچی سے ملتان تک فیول کی منتقلی روڈ کے ذریعے ٹینکرز سے ہوتی ہے، پائپ لائن کے ذریعے فیول کی ترسیل پر کام شروع کر دیا گیا ہے، 2019ء تک یہ کام مکمل ہوجائے گا، ملتان سے لاہور دوسری پائپ لائن کام کررہی ہے، لاہور سے گجرات، گجرات سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے پشاور تک پائپ لائن کی بی او ٹی کی بنیاد پر بڈنگ کرائی گئی، یہ ایک ارب ڈالرکی پائپ لائن ہے، روپے کی بنیاد پر ٹیرف ہوگا جو 15سال کے لئے فلیٹ ریٹ ہوگا۔

اس سے تیل کی قیمت میں کمی آئے گی ‘15سال بعد یہ پائپ لائن حکومت کے حوالے کر دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ فرنس آئل کا استعمال دنیا میں ختم ہوتا جارہا ہے، کئی ممالک نے مضر اثرات کی بناء پر پابندی عائد کر دی ہے‘ پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا جو فرنس آئل استعمال کر رہا تھا ‘ ہم نے اس ضمن مین اہم اقدام اٹھایا اور سال میں8 مہینے فرنس آئل درآمد نہیں کیا گیا، مقامی ریفائنریاں جو فرنس آئل ریفائن کرتی ہیں وہ ہی استعمال ہورہا ہے، 2019ء کے آخر تک پاکستان فرنس آئل درآمد نہیںکریگا۔

ملک میں تیل صاف کرنے والے کارخانوں کے حوالے سے وزیراعظم نے کہاکہ پانچ پرانی ریفائنریز کام کررہی ہیں، اس شعبے میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے اسے بہتر بنایا گیا، تین ریفائنریر پر کام ہو رہا ہے، کراچی میں ریفارنری ایک لاکھ بیرل یومیہ تیل صاف کرے گی، دو مزید ریفائنریز پر کام شروع کردیا گیا ہے جو تین لاکھ بیرل یومیہ تیل صاف کرے گی، ان کا شمار دنیا کی بڑی اور مؤثر ریفائنریز میں ہوگا، حب کے قریب ایک ریفائنری قائم کرنے کے لئے زمین پارکو کو دے دی گئی ہے، یہ 500 ارب روپے کا منصوبہ ہی جوتین سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔

امید ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ ہو گا اس کیلئے سرمائے کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ کراچی اور لاہور کے درمیان ریفائنری قائم کرنے کا بھی منصوبہ ہے جس پر 6 سے 7 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور یہ پانچ سال میں مکمل ہو گا جس سے انرجی سکیورٹی یقینی ہو گی۔ ایک سوال کے جواب میںوزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گیس چوری ہوری ہے، یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے ‘ہم گیس پیدا کرتے ہیں، صوبائی حکومتیں کوئی مدد نہیں کرتیں‘ بعض جگہوں پر پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں گیس چوری ہوتی ہے‘ ملک کا سرمایہ چوری ہورہا ہے ‘ضروت اس امر کی ہے کہ چوری ختم کی جائے ‘ صوبے اپنی گیس رکھیں اور تقسیم بھی خود کریں اور نظام بنائیں‘ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں تمام صوبوں کو پیشکیش کر دی ہے ‘ماضی میں کوئی حکومت اس پر بات نہیں کرتی تھی۔

بجلی کے بحران پر مکمل قابو پا لیا ہے‘ ایسا چینلج تھا جو نہ حل ہونے والا تھا ‘بے روزگاری کا خاتمہ معاشی ترقی سے ممکن ہے ، ہم نے جی ڈی پی کو دوگنا کیا جس سے سرمایہ کاری میںاضافہ ہوا اور ترقی کی طرف گامزن ہوئے، یہی ترقی کرنے اور بیروزگاری کم کرنے کا یہی ماڈل ہے، ہم نے اس پر عمل کیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب دنیا میں پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان میں بھی پیٹرولیم کی قیمتوں میںاضافہ ہوتا ہے اس وقت بھی پاکستان میں پیٹرولیم کی قیمت کم ہے، درآمدی ممالک میں پاکستان میں سستا ترین پٹرول دستیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایل این جی کے حوالے سے قطر معاہدہ پی ایس او کی ویب سائٹ پر آج بھی موجود ہے‘ یہ دنیا کا سستا ترین معاہدہ ہے۔ ایل این جی کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہاکہ جس نے الزام لگانا ہے وہ لگائے‘ الزامات مجھ پر لگائے‘ افسران اور محکمے کو تنگ نہ کریں ‘میں ہر الزام کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں ‘ مجھ پر وہ شخص الزام لگائے جو یہ کہہ سکے جب وہ سیاست میں آیا تھا اس وقت اس کے اثاثے اور وسائل زیادہ تھے اور آج کم ہوئے ہیں‘ میں جب 30 سال قبل سیاست میں آیا تھا تو میرے اثاثے اور وسائل زیادہ تھے آج ان میں کمی آئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے میری جماعت نے وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا ہے، میری ذمہ داری کام کرنا ہے اور میں کل جمعرات کی شب رات 11بجکر 59 منٹ 59 سیکنڈ تک کام جاری رکھوں گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کاروبار اور اثاثے بنانے کے خلاف نہیں، الزام وہ لگاتے ہیں جو خود کرپٹ ہوتے ہیں یا جن کے ہاتھ خود صاف نہیں ہوتے، نواز شریف کی فیملی کو پورا پاکستان جانتا ہے، ان کے اثاثے آج کے نہیں، تقسیم پاکستان سے قبل کے ہیں،کسی نے حساب لینا ہے تو لے لے، پانچ سال حکومت میں رہے، ایک سکینڈل، ایک الزام بتا دیں ۔

انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بعض اخبارات میں اس بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، ہمیں ان کی پراہ نہیں، ہم نے الیکشن لڑنا ہے، آئین60 دن کی اجازت دیتا ہے اس مدت میں الیکشن ہونا ہیں، جو اسکی خلاف ورزی کر ے گا اس پر آئین کا آرٹیکل چھ لاگو ہونا چاہیے۔