موجودہ حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور شاہرات و موٹرویز کی تعمیر پر خصوصی توجہ مرکوز کی جس کے دور رس سماجی و اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے،

چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 1750 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے مکمل، جاری یا منصوبہ بندی و پروکیورمنٹ مراحل میں ہیں، سی پیک منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے، ہم نے جو بھی منصوبے شروع کئے انہیں اپنے ہی دور میں مکمل کیا، ماضی کے بہت سے ادھورے منصوبے بھی ہم نے مکمل کئے، 60 روز میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن بلاتاخیر 25 جولائی کو ہوں گے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت مکمل اور جاری منصوبوں بارے پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 31 مئی 2018 20:25

موجودہ حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور شاہرات ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 مئی2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور شاہرات و موٹرویز کی تعمیر پر خصوصی توجہ مرکوز کی جس کے دور رس سماجی و اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے، چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 1750 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے مکمل شدہ، جاری یا منصوبہ بندی و پروکیورمنٹ مراحل میں ہیں، سی پیک منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے، ہم نے جو بھی منصوبے شروع کئے انہیں اپنے ہی دور میں مکمل کیا، ماضی کے بہت سے ادھورے منصوبے بھی ہم نے مکمل کئے، 60 روز میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن بلاتاخیر 25 جولائی کو ہوں گے۔

انہوں نے یہ بات جمعرات کو وزیراعظم آفس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ ای) کے تحت مکمل اور جاری منصوبوں کی تفصیلات کے حوالہ سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور این ایچ اے چیئرمین جواد رفیق ملک بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شاہرات اور موٹرویز کسی بھی ملک کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور دیگر شعبوں پر نہایت دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا موجودہ حکومت نے اس کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں موٹرویز اور سڑکوں کا جال بچھایا۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء کے بعد اب تک شاہرات و موٹرویز اور پلوں کی تعمیر کے حوالہ سے 35 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، جن پر 498 ارب روپے کی لاگت آئی اور ان شاہرات کی مجموعی لمبائی 2813 کلومیٹر ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالہ سے بتایا کہ ان منصوبہ جات میں ہزارہ موٹروے، خوشحال گڑھ پل، اسلام آباد۔لاہور موٹروے کو جدید خطوط پر استوار کرنا، شاہین چوک، سلطان باہو برج، فیصل آباد۔

گوجرہ موٹروے (ایم 4)، گوجرہ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ موٹروے، شرقپور۔رجانہ (ایم تھری)، شہید بے نظیر بھٹو پل، خانیوال۔ملتان موٹروے (ایم فور)، ملتان۔شجاع آباد موٹروے سیکشن، نصیر آباد۔سہیون رتو ڈیرو روڈ، شہداد کوٹ قمبر، لاڑکانہ روڈ، کراچی۔حیدرآباد ایم نائن، لیاری ایکسپریس وے، لواری ٹنل، عطاء آباد ٹنل، پشاور ناردرن بائی پاس، رائے منصب علی کھرل پل ننکانہ صاحب، جلالپور اوچ شریف روڈ، قلات۔

کوئٹہ۔چمن روڈ، لاڑکانہ۔ موہنجوداڑو، گوادر۔تربت،ہوشاب، سہراب۔ہوشاب روڈ سمیت دیگر اہم شاہراتی منصوبے شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے علاوہ گذشتہ حکومتوں کی طرف سے نامکمل چھوڑے گئے کئی پرانے منصوبے بھی تھے جنہیں موجودہ حکومت نے مکمل کیا۔ ان میں لواری ٹنل، گوادر۔تربت۔ہوشاب روڈ، گوادر۔تربت روڈ، قلات، کوئٹہ، چمن روڈ جیسے منصوبے گذشتہ 12 سے 14 سال سے ادھورے پڑے ہوئے تھے جنہیں ہم نے مکمل کیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جاری منصوبہ جات میں 25 منصوبے شامل ہیں، 445 ارب روپے کی لاگت سے 1460 کلومیٹر طویل سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں جو مختلف مراحل میں ہیں، اس طرح موجودہ حکومت نے 498 ارب روپے کے منصوبے مکمل کئے اور 445 ارب روپے مالیت کے منصوبوں پر کام جاری ہے اور ان کی مجموعی لاگت 943 ارب روپے بنتی ہے۔ موجودہ حکومت کے جاری منصوبہ جات میں جگلوٹ۔

سکردو روڈ، لاہور ایسٹرن بائی پاس، ژوب۔مغل کوٹ روڈ، قلعہ سیف الله۔ویگم روڈ، ملتان روڈ سے منسلک ہونے والی ٹھوکھر نیاز بیگ روڈ، چکدرہ۔کالام روڈ، کوہاٹ۔جنڈ۔پنڈی گھیب روڈ، سیالکوٹ۔پسرور روڈ، امامیہ کالونی برج لاہور، راولپنڈی کہوٹہ روڈ، نارنگ منڈی شیخوپورہ روڈ، پٹارو سے سیہون روڈ، کیلاش ویلی روڈ، اولڈ بنوں روڈ کو دو رویہ کرنے، ڈی جی خان نادرن بائی پاس جیسی اہم شاہرات شامل ہیں۔

وزیراعظم نے بتایا کہ اس کے علاوہ 800 ارب روپے کی لاگت سے 3200 کلومیٹر طویل 21 منصوبے پلاننگ اور پروکیورمنٹ کے مرحلہ میں ہیں جن کا ڈیزائن اور ٹینڈر ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان منصوبہ جات میں گلگت۔شندور۔چترال روڈ (سی پیک) شامل ہے جو قراقرم ہائی وے کا متبادل راستہ ہو گا، اس کے علاوہ رائے کوٹ۔تھاکوٹ کا شاہراتی منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ مانسہرہ۔

مظفرآباد۔میرپور روڈ پورے آزاد کشمیر کو باہم منسلک کرے گی اور یہ منفرد نوعیت کا منصوبہ ہے۔ رائے کوٹ۔تھاکوٹ روڈ، لوئر ٹوپہ۔کوہالہ روڈ کے منصوبے بھی ہیں۔ فیصل آباد اور ساہیاں والا روڈ، پشاور درہ آدم خیل روڈ کے منصوبے ہیں۔ اس کے علاوہ یانک،ژوب روڈ مغربی کوریڈور کے تحت ژوب۔کوئٹہ، خضدار۔چمن روڈ، نوشکئی دالبندین روڈ کے منصوبے ہیں۔

علاوہ ازیں سکھر۔روہڑی برج، نوکھنڈی ماشخیل، خضدار۔بسیمہ روڈ کے منصوبہ جات بھی منصوبہ بندی اور پروکیورمنٹ کے مراحل میں ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ مغربی کوریڈور پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اس حوالہ سے منصوبہ جات پر کام جاری ہے۔ خضدار۔شہداد کوٹ روڈ، ژوب۔مغل کوٹ، قلعہ سیف الله ویگم، ژوب۔کوئٹہ جیسے منصوبے اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ اس طرح تکمیل شدہ، جاری اور منصوبہ بندی کے مرحلہ میں 1750 ارب روپے لاگت کے منصوبے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ جات نواز شریف کے وژن کی بدولت مکمل ہوئے ہیں، اس سے پاکستان کو ترقی ملے گی اور نہ صرف ملک کے مختلف حصے بلکہ مغربی چین اور وسطی ایشیاء باہم منسلک ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ مغربی کوریڈور آج بھی موجود ہے اور اس پر توجہ دی جا رہی ہے، کسی کو شکایت ہو تو ہم حاضر ہیں، سب سے زیادہ کام بلوچستان میں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہرات کسی بھی ملک کی ترقی میں بہت اہم ہوتی ہیں، ایسے منصوبے ملک کو ترقی دیتے ہیں، جس ملک میں سڑکیں نہیں بنتیں وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا، لہٰذا ہم نے اس شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی جس سے ملک ترقی کرے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان بن چکا ہے نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے اب کوئی اور حربہ ڈھونڈیں، ہم نے اپنا کام کیا، ہماری حکومت نے جو کام کئے وہ بے مثال ہیں۔

2013ء کے مقابلہ میں آج حالت کہیں بہتر ہے، یہ منصوبے اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابات میں تاخیر سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 60 روز میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، موجودہ حکومت نے الیکشن کمیشن کی طرف سے مردم شماری سمیت مختلف نوعیت کی شکایات دور کر دی تھیں لہٰذا الیکشن 25 جولائی کو ہوں گے، اس میں ایک دن کی تاخیر کی بھی گنجائش نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک کے تحت منصوبہ جات تیزی سے چل رہے ہیں جن میں شاہرات، گوادر، تھر، کوئلہ کے پلانٹس، ایچ وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے وسائل سے ترقی نہیں کرتا، سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ثمرات ملتے ہیں، ہم نے بھی کچھ منصوبے پی ایس ڈی پی کے تحت، کچھ بی او ٹی کی بنیاد پر اور کچھ بیرونی قرضے لے کر مکمل کئے ہیں یا جاری ہیں، ملک قرضے لیتے ہیں اور اس کی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان کے سفیر علی جہانگیر صدیقی کی تقرری کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کا نام میں نے تجویز کیا تھا، انہوں نے امریکہ میں اپنی ذمہ داری سنبھال لی ہے اور کام کر رہے ہیں، وہ میرے رشتے دار یا کاروباری پارٹنر نہیں ہیں، ان کو تو نوکری کی ضرورت نہیں تھی، وہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، میرا ان پر پورا اعتماد ہے، حکومت نے قانون کے مطابق ان کی تقرری کی ہے۔

سرکاری ملازمین کو تین ماہ کے اعزازیہ کے اعلان سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ غلط رپورٹ ہوا ہے اور اس بارے میں غلط تاثر پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سیکرٹریٹ ملازمین کو ہر سال اعزازیہ دیتی ہے، کسی وزارت سے دو، کسی سے تین یا کسی سے پانچ یا چھ بنیادی تنخواہوں کے مساوی اعزازیہ کی سفارش کی جاتی تھی ہم نے اس کو یکساں کر دیا ہے اور سیکرٹریٹ ملازمین کو تین بنیادی تنخواہوں کے مساوی اعزازیہ دیا جائے گا۔