کرپٹ بیوروکریسی کا سپریم کورٹ کے احکامات بھی ماننے سے انکار

سرمایہ کار کے اربوں روپے ڈوب گئے، بلوچستان میں گڈانی فش ہاربرپراجیکٹ سے متعلق سفارشات سپریم کورٹ نے سینیٹ آف پاکستان بھیج دی تھیں سینیٹ میں 14سینیٹر ز پر مشتمل فنکشنل کمیٹی آن ڈیولیوشن کی اجلاس کی سفارشات پر حکومتی اور بیورکریسی نمائندوں نے ہاتھ کھڑے کردیئے رشوت کی عرض سے سمری شاہدخان عباسی تک نہیں پہنچائی گئی ،ْچیئرمین ایم کے کمپنی ملک محمد خان کی گفتگو

جمعرات 31 مئی 2018 20:58

کرپٹ بیوروکریسی کا سپریم کورٹ کے احکامات بھی ماننے سے انکار
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 31 مئی2018ء) ن کرپٹ بیوروکریسی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات بھی ماننے سے انکار کر دیا سرمایہ کار کے اربوں روپے ڈوب گئے بلوچستان میں گڈانی فش ہاربرپراجیکٹ سے متعلق سفارشات سپریم کورٹ نے سینیٹ آف پاکستان بھیج دیئے تھے۔سینیٹ میں 14سینیٹر ز پر مشتمل فنکشنل کمیٹی آن ڈیولیوشن کی 22فروری 2018کو ہونے والے اجلاس کی سفارشات پر حکومتی اور بیورکریسی نمائندوں نے ہاتھکھڑے کردیئے۔

رشوت کی عرض سے سمری شاہدخان عباسی تک نہیں پہنچائی گئی ہے۔ایم کے کمپنی کے چیئرمین ملک محمد خان نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے کنگال کردیا۔ قومی مفاد کی خاطر ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں۔

(جاری ہے)

اسی پراجیکٹ کے تحت عالمی معیا ر اور تقاضو ں سے ہم آہنگ گڈانی فش ہاربر کے آپریشنل ہونے سے ہزاروں ماہی گیروں سمیت ایک لاکھ سے زائد روزگار اور سی فوڈ ایکسپورٹ سے سالانہ کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔

پاکستان میں ایک بھی فش ہاربر ایسا نہیں جو یورپ یونین کے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہو۔یورپی یونین کے ڈپٹی ہیڈنے گڈانی فش ہاربر کا 2013ن دورہ میں کیا۔ان کو گڈانی فش ہاربر کا ماحول بہت پسند آیاتھا۔کراچی فش ہاربر پر گندگی کی وجہ سے یورپ یونین نے پاکستان سے مچھلی کی درآمد پر پہلی پابندی 1998 میں لگائی۔دوسری پابندی 2005 اور تیسری 2007 میں لگائی۔

کراچی فش ہاربر کی گنجائش 700کشتیوں تک ہے جبکہ یہاں 3000سے زائد کشتیاں مچھلی اتارتی ہیں۔بلوچستان کی کشتیاں آئے دن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جو بلوچستان کے غریب ماہی گیروں کیلئے ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ان کا کہناتھا کہ کراچی ہاربر سے اضافی کشتیوں کا بوجھ کم کردیاجائے تاکہ حفظان صحت کے اصولوں کو اپنایا جاسکے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ گڈانی فش ہاربر جنگی بنیادوں پر حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق بنایا اور چلایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ فیکٹریوں کو’’ای یو‘‘ کی منظور شدہ لسٹ میں شامل کیا جا سکے۔

گڈانی فش ہاربر کی 172 ایکڑ اراضی پی ٹی ڈی سی کی ملکیت ہے اور انہیں قانون کے مطابق زمین بیچنے یا خریدنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔2014 میں پی ٹی ڈی سی نے زمین کی فروخت یا لیز کا اشتہار دیا۔ایم کے پاکستان کی تجویز برائے خریداری 2015 میں منظور ہوئی۔پی ٹی ڈی سی نے پھر اس کی منظوری کے لئے وزیر اعظم اپیل کر دی۔2015 میں ہی کیبنٹ سیکرٹری نے وزیر اعظم کیلئے سمری تیار کی اور کہا کہ سمری وزیر اعظم سیکرٹیریٹ کی ہدایت کے مطابق رکی ہوئی ہے۔

پی ٹی ڈی سی کو یہ زمین خریدے ہوئے 42 سال ہو گئے ہیں لیکن تاحال وہاں ایک پودہ تک نہیں لگایا گیا ہے۔دوسرے ممالک میں سرمایہ کاروں کو ایسے پراجیکٹ بنانے کیلئے دعوت دی جاتی ہے لیکن مقامی سرمایہ کار اگر قومی مفاد کا کوئی پراجیکٹ بنائے تو بے شمار رکاوٹیں ڈال دی جاتی ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی نواز شریف نے کیس کا مطالعہ کیا۔

مطالعہ کے بعد پروجیکٹ کو سراہا، کیس کو قومی مسئلہ قرار دیاتھا اور معاملے کے حل کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔نوازشریف نے کام کی ذمہ داری ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد کے ذمے لگائی تھی۔وزیر اعظم سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور فواد حسن فواد کی رکاوٹ کے حوالے سے بتایا۔ فواد حسن فواد کام کیلئے ہم سے رشوت طلب کر رہے تھے۔وزیر اعظم شاہد خاکان عباسی نے بھی منظوری کا وعدہ کیا لیکن تاحال کوئی کاروائی نہیں ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ اس قومی مسئلے پر سو موٹو ایکشن لیں۔سینٹ کی کمیٹی کے فیصلے کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔پی ٹی ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ کے فیصلے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے 172 ایکڑ زمین ایم کے پاکستان کو منتقل کی جائے۔ گزشتہ تین سال میں کمپنی غریب ماہی گیروں کو جو نقصان ہوا ہے اسکا ازالہ کیا جائے اور ایم ڈی پی ٹی ڈی سی، سیکرٹری کیبنٹ، فواد حسن فواد، وزیر اعظم، نواز شریف کی جیبوں سے ادا کیا جائے۔