جن تنظیموں پر پاکستان میں پابندی ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے ایسی تنظیموں کا راستہ روکے،عوامی نیشنل پارٹی

جمعرات 31 مئی 2018 23:02

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 مئی2018ء) عوامی نیشنل پارٹی نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ جن تنظیموں پر پاکستان میں پابندی ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی تنظیموں کا راستہ روکے، کیونکہ نیشنل ایکشن پلان بناتے وقت فیصلہ ہوا تھا کہ نام بدل کر آنے والی کالعدم تنظیموں کو ہر صورت روکا جائیگا مگر اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کالعدم تنظیمیں یا تو نئی سیاسی جماعتوں کے نام اپناکر اور یا ان کے ارکان دیگر سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر پارلیمنٹ پہنچنے کی تگ ودو میں ہیں اور یہ عمل پاکستانی ریاست اور اس کے نظام کیلئے خطرے سے خالی نہیں ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخارحسین کی قیادت میں اے این پی کی نمائیندہ وفد نے آج اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر میں حکام سے انتخابات کے حوالے سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔

(جاری ہے)

وفد میں پارٹی کے مرکزی نائب صدر حاجی غلام احمد بلور، مرکزی نائب صدر بشری گوہر اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان شامل تھے۔اے این پی وفد کا خیال تھا کہ 2013 کے انتخابات میںعوامی نیشنل پارٹی کو فئیر پلے گراونڈ میسر نہیں تھااور اس سلسلے میں ہم نے الیکشن کمیشن کو اگاہ بھی کیا تھا کہ ہم کو انتخابات میں شریک ہی نہیں ہونے دیا گیا لیکن الیکشن کمیشن نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا، وفد کے قائد میاں افتخارحسین کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت اور امیدوار کو پلین فیلڈ فراہم نہیں کرسکتا تو وہ ضابطہ اخلاق بناکر شفاف انتخابات کے انعقاد کا دعوی کیسے کرسکتا ہی میاں افتخارحسین نے مزید کہا کہ انتخابات بہرصورت وقت پر ہونے چاہئیںاور خیبر پختونخوا کے ساتھیوں کی جانب سے لکھے گئے خط، بلوچستان اسمبلی کی قرارداد اور عدالت کی جانب سے بعض حلقہ بندیوں کو رد کرنے سے بروقت انتخابات کے انعقاد پر اثر نہیں پڑنا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق صرف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں پر لاگو ہوتا ہے اور یہ انتظامی عملے کے کردار کو نہیں چھیڑتا، انہوں نے زور دیا کہ انتظامیہ اور عملے کے ارکان کیلئے بھی ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے تاکہ انہیں پابند رکھ کر شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جاسکے۔ میاں افتخارحسین نے مزید کہا کہ انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کسی بھی سیکورٹی ایجنسی سے انتظامات کیلئے مدد مانگتی ہے تو اس کیلئے بھی ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پولنگ سٹیشن کے اندر کامل اختیارات ریٹرننگ افیسر اور اس کے ماتخت انتظامی عملے کو ملنے چاہئیں اور اگر عملہ محسوس کرے تو سیکورٹی کو بلایا جاسکے ۔

اے این پی وفد نے الیکشن کمیشن کے حکام سے کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کیلئے تو بالترتیب 40 لاکھ اور 20 لاکھ روپے کے اخراجات کی حد رکھی گئی ہے مگر دوسری جانب سیاسی جماعت کی جانب سے کئے جانے والے اخراجات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ وفد کا خیال تھا کہ بعض پارٹیوں کی جانب سے بسا اوقات چینلوں کی پوری ٹرانسمیشن خرید لی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا، اگرچہ میڈیا کا ایسا استعمال ہرگز مناسب نہیں اور سب سیاسی جماعتوں کو مناسب کوریج ملنی چاہئے۔

وفد ارکان نے قرانی ایات اور احادیث مبارکہ کے استعمال کا خیال رکھنے کی تجویز کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی زور دیا کہ اس میں دیگر مذاہب کے مقدسات کا بھی خیال رکھنے کی تاکید ضروری ہے جبکہ انتخابی نشانات جس نام سے دیئے جائیں، ضروری ہے کہ اسی نام کا استعمال کیا جائے اور اپنے مخصوص مقاصد کیلئے ان نشانات کو مخصوص شکل میں پیش کرنا انتخابی ضابطے کی خلاف ورزی سمجھی جانی چاہیے۔

وفد نے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دیا کہ الیکشن کمیشن کی مقررہ پانچ فیصد شرح سے سیاسی جماعتوں میں خواتین کو ٹکٹوں کے اجراء سے ان کی شرکت یقینی بنائی گئی ہے جو کہ خوش ائند ہے مگر الیکشن کمیشن اس سلسلے میں خواتین کو سہولیات بہم پہنچانے کیلئے اقدامات اٹھائے، ان کا تحفظ یقینی بنائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے واقعات کا ظہور ہو جس کو بنیاد بناکر خواتین انتخابی عمل میں حصہ لینے سے کترائیں۔اے این پی وفد نے الیکشن کمیشن کی دستاویزات میں کے پی کے کے لفظ کے استعمال پر اعتراض اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ صوبے کا پورا آئینی نام لکھنے کو رواج دیا جائے۔