جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کو مئی 2018 ء میں مزید 86 کیس موصول ہوئے، مجموعی کیسز کی تعداد 5 ہزار 177 ہوگئی ہے

کمیشن سربراہ جسٹس جاوید اقبال کی ذاتی کوششوں سی31 مئی 2018ء تک 5177 کیسز میں سے 3331 نمٹا دیئے گئے ہیں

جمعرات 31 مئی 2018 23:29

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 مئی2018ء) جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کو مئی 2018 ء میں مزید 86 کیس موصول ہوئے ہیں جس سے مجموعی کیسز کی تعداد 5 ہزار 177 ہوگئی ہے۔ جمعرات کو جاری پریس ریلیز کے مطابق جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن اور اس کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال کی ذاتی کوششوں سی31 مئی 2018ء تک 5177 کیسز میں سے 3331 نمٹا دیئے گئے ہیں۔

کمیشن نے مئی 2018ء میں 62 کیسز نمٹائے ہیں جبکہ 1846 کیسز باقی ہیں۔ انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے اس حوالے سے اسلام آباد میں 204 اور کراچی میں 169 ، لاہور میں 73 اور کوئٹہ میں 91 کیسز کی سماعت کی۔لاپتہ افراد کے رشتہ داروں جسٹس جاوید اقبال کی جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کے ساتھ ساتھ چیئرمین نیب کی حیثیت سے ذاتی کوششوں اور کارکردگی کو سراہا بھی ہے۔

(جاری ہے)

ان کی کوششوں سے 3331 لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس پہنچ چکے ہیں جبری لاپتہ افرادکے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال ہفتہ میں روز اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں بلکہ چھٹیوں کے دنوں میں بھی بغیر تنخواہ اور مراعات کے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔انہوں نے ناصرف ذاتی طورپر لاپتہ افراد کے لواحقین کی شکایات سنیں بلکہ ان کی جلدازجلد واپسی کیلئے کوششیں کیں۔

لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے بھی جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کو تین سو سے زائد کیسز بھجوائے ہیں جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی کامیابی کی بڑی وجوہات ان کا عزم، حوصلہ اور انسانیت سے مخلص ہونا ہے۔

جسٹس جاوید اقبال لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرکاری وسائل استعمال کرنے کے بجائے زیادہ تر ذاتی وسائل استعمال کرتے ہیں اور جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے 61 لاکھ روپے حکومت کو واپس کئے ہیں اور ان واقعات کی تحقیقات کیلئے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا اور نہ ہی وہ جبری لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے کوئی تنخواہ وصول کرتے ہیں اسی طرح جسٹس جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کی حیثیت سے نیب کو انسداد بدعنوانی کا فعال ادارہ بنا دیا ہے اور گزشتہ سات ماہ کے مختصر عرصہ میں انسداد بدعنوانی کی جامع حکمت عملی وضع کی ہے جس کے مثبت نتائج آئے ہیں آج نیب قوم کی آواز ہے اور بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے احتساب سب کیلئے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔